پاکستانی ججز قصاب بن کر جمہوریت کو کیسے ذبح کرتے ہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ثاقب نثار تک اور جسٹس آصف سعید کھوسہ سے لے کر جسٹس عمر عطا بندیال تک، تمام چیف جسٹس صاحبان نے نہایت سنگدلی کے ساتھ جمہوریت اور پارلیمینٹ کی بنیادوں میں نہ صرف بارُود بھرا بلکہ اسے آگ دکھا کر نظام کے پرخچے اڑا دیے۔ عدلیہ کی بنیادوں میں بارُود بھی خود ان ہی عمراندار ججز نے بھرا جن کے سیاسی فیصلوں نے آئین وقانون کے ساتھ وہ سلوک کیا جو عید قربان کے موقع پر بے ہنر قصاب، قربانی کے جانوروں کیساتھ کرتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر ایک عرصے سے جلالی کیفیت طاری ہے۔ اِس کیفیت کا ارتعاش، شہرۂِ آفاق چھبیسویں ترمیم سے پہلے ہی محسوس کیا جا رہا تھا۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اِس ارتعاش کا سبب کیا تھا جو پہلے اضطراب اور پھر اشتعال کی شکل اختیار کرگیا۔ تحقیق کرنے والے صحافی اور معاملات کو گہری نظر سے دیکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ اِس کیفیت کا کچھ نہ کچھ تعلق تحریکِ انصاف کے بانی اور قائد، عمران خان کی گرفتاری، قید اور اُن کیخلاف مقدمات سے ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کا رویہ اُن کے بارے میں ہمیشہ نہایت مشفقانہ، ہمدردانہ بلکہ عاشقانہ رہا۔ پہلی گرفتاری کے فوراً بعد جب سرِشام خصوصی عدالت لگی اور حکم صادر ہوا کہ عالی مرتبت ملزم کو مرسڈیز گاڑی میں بٹھاکر ججز کے لئے مخصوص گیٹ سے عدالت لایا جائے تو انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ خان صاحب کو لایاگیا تو چیف جسٹس، عمر عطا بندیال چبوترے سے نیچے اُتر کر ان سے بغل گیر تو نہ ہوئے لیکن ’’گُڈ ٹو سی یُو‘‘ کہہ کر، نہایت بے ساختگی سے اپنے جذباتِ مسرّت کا اظہار کچھ اِس طرح کیا کہ تاریخ رقم ہوگئی۔

عمر عطا بندیال نے یہ حکم بھی صادر فرمایا کہ ملزم کو رات کے وقت، پولیس لائن کے آراستہ پیراستہ بنگلے میں رکھا جائے۔ اُسے جو بھی ملنے آئے، روکا نہ جائے۔ چنانچہ رات کو صدر ڈاکٹر عارف علوی انواع واقسام کے کھانوں کے طباق اُٹھائے پولیس لائن پہنچ گئے۔ یوں پاکستان کے منصفِ اعظم نے ایک واضح پیغام دیا کہ عمران کو نوازشریف، آصف زرداری یا اِس قبیل کا کوئی عام قیدی نہ سمجھا جائے، اُس کا مرتبہ ومقام اُن سب سے منفرد وممتاز ہے۔ جسٹس بندیال دراصل اُس روایت کو آگے بڑھا رہے تھے جسے آصف سعید کھوسہ، عظمت سعید شیخ، ثاقب نثار اور اُن کے رفقاء نے بڑی محنت سے بُنا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے زمامِ عدل سنبھالی تو عمران نواز روایت کے پاسبانوں کے پَر بندھ گئے اور اُن کی اُڑانیں محدود ہو گئیں۔ آج سے ٹھیک ایک برس پہلے جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کا شہرۂِ آفاق خط منظر عام پر آیا تو ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ سوال پیدا ہوا کہ یکایک اِس طرح کا خط لکھنے اور اُسے میڈیا میں نشر کرنے کا سبب کیا ہے؟ خط میں ’’ایجنسیوں‘‘ کی مداخلت کا ذکر کیا گیا۔ اِس ضمن میں کئی ماہ پرانے کسی واقعہ کو بطور سند بھی پیش کیا گیا۔ اہلِ پاکستان کے لئے یہ کوئی چونکا دینے والی باتیں نہ تھیں۔ خود چھ خط نویس جج صاحبان، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی عدل کی دنیا میں اچانک وارد ہونے والے اجنبی نہیں تھے۔ سب کو اپنے وطن کی آب وہوا اور موسموں کے چال چلن کا بخوبی اندازہ تھا۔ جسٹس محسن اختر کیانی تو اُس وقت بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کا حصہ تھے جب اُن کے خط سے ساڑھے پانچ برس قبل، اکتوبر 2018 میں اُن کے سینئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کو، ایسے ہی ایک جُرم، کی پاداش میں نشان عبرت بنا دیا گیا تھا۔ تب ’’ایجنسیوں کے کردار‘‘ کے سب سے بڑے نقاد جسٹس اطہر من اللہ کے لبوں سے ایک حرفِ احتجاج تک نہ پھوٹا تھا۔

عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ شوکت عزیز کے جانے سے اُنہیں چیف جسٹس بننے کا موقع مل گیا۔ تب جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی خاموش رہنے کو ترجیح دی اور حق گوئی و بے باکی کو آنے والے ساڑھے پانچ سالوں تک موقوف رکھا۔ لیکن اب تو اڈیالہ جیل سے شاہراہِ دستور کے کنارے کھڑی عالی مرتبت عمارتوں تک خطوں کا ایک سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ اِن سب خطوط میں آپ کو کہیں نہ کہیں اُس تمنا یا آرزو کا رنگ ضرور دکھائی دیگا جس نے اوّل اوّل آصف سعید کھوسہ کے دِل میں جنم لیا اور جسے ’’گُڈ ٹو سی یُو‘‘ کہہ کر عمر عطا بندیال نے جذبہ واحساس میں گندھے رومانوی کلمے کی شکل دی ۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اَب یہ عمرانی رنگ ’’ہولی‘‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ نہ صرف عدالت کے درودیوار اِس رنگ میں نہا گئے ہیں بلکہ اِس کے چھینٹوں سے شاہراہِ دستور بھی گل رنگ ہو رہی ہے۔ تازہ ترین گُل افشانی کا شاہکار جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے وہ جُملے ہیں جو اُنہوں نے، عمران خان ہی کے حوالے سے ایک مقدمہ اپنی کاز لسٹ سے نکال دیے جانے پر ادا کئے۔ انہوں نے بھری عدالت میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے کہا __’’کاز لسٹ سے مقدمہ نکال دینے سے پہلے، میری عدالت کی بنیادوں میں بارُود رکھ کر اُڑا دیتے۔‘‘ عمران خان کی وکیل مشال یوسف زئی نے حوصلہ پا کر مٹھی بھر بارُدو پھینکتے ہوئے کہا __ ’’سَر آپ دیکھئے! ہمارے ساتھ باہر یہ ہورہا ہے تو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں یہ لوگ کیا کرتے ہوں گے؟‘‘ اس پر جج صاحب نے کہاکہ ’’آپ یہ بات کہہ رہی ہیں۔ ہمیں تو اپنے ادارے کی فکر پڑ گئی ہے۔ جو گائیڈڈ میزائل آپ کی طرف جارہا تھا، وہ اب ہماری طرف آ رہا ہے۔‘‘ جج صاحب نے مزید فرمایا__ ’’کیا آپ کرپشن اور اقربا پروری کے دروازے کھول رہے ہیں؟ ریاست نے اگر یہی فیصلہ کرلیا ہے کہ اُس نے جنگ جیتنی ہے تو میرا یہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ لیکن عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مقام شکر ہے کہ ایسا کہنے کے باوجود وہ منصب قضا پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو کسی صدمے یا خلا سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اِس قضیے کا تعلق بھی ممتاز ومنفرد قیدی، عمران خان سے ہے جنہوں نے جیل میں ملاقاتوں اور سہولتوں کے حوالے سے چھبیس درخواستیں دائر کر، یا کرا رکھی ہیں۔ اِن درخواستوں کے حوالے سے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے چیف جسٹس کے پاس عرضی گزاری کہ ’’مختلف عدالتوں میں، مختلف تاریخوں پر لگے مقدموں سے انتظامی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مختلف جج صاحبان کے فیصلوں یا ہدایات میں بھی یکسانیت نہیں ہوتی۔ اسلئے استدعا ہے کہ ان چھبیس درخواستوں کو یکجا کرکے کوئی بڑا بینچ سُن لے۔‘‘ عمران خان کے وکیل نے اس پر اعتراض نہ کیا چنانچہ قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے اپنی سربراہی میں ایک تین رُکنی لارجر بینچ قائم کرکے تمام درخواستوں کو یکجا کردیا۔ ان میں مشال یوسفزئی کی وہ درخواست بھی شامل تھی جو جسٹس سردار اعجاز اسحاق سُن رہے تھے۔ جسٹس صاحب نے اس اقدام کو قانون اور عدالتی قواعد وضوابط کے منافی قرار دیتے ہوئے، اُن کی عدالت کی بنیادوں میں بارُود بھرنے کے مترادف قرار دیا۔

فوجی قیادت کا دہشتگردی مخالف آپریشن بدر شروع کرنے کا فیصلہ

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جسٹس صاحب کا موقف درست ہے یا سہ رُکنی بینچ کا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ جسٹس منیر سے لے کر عہدِ حاضر تک، صاحبانِ عدل نے کب کب کس سنگ دلی کے ساتھ جمہوریت اور پارلیمان کی بنیادوں میں نہ صرف بارُود بھرا بلکہ اس بارُود کو آگ دکھا کر اُن کے ایسے پرخچے اُڑائے کہ وہ برسوں اپنے اجزائے پریشاں سمیٹتے رہ گئے۔

Back to top button