عمران خان سیاسی انتقام میں کس حد تک جا سکتے ہیں؟
تحریر: سید مجاہد علی
وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ’کیا آپ نے تیاری کرلی ہے کہ یہ تحریک ناکام ہونے کے بعد میں آپ کے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟‘ وہاڑی میں عوامی رابطہ مہم کے جلسہ سے خطاب کے دوران یہ دھمکی دیتے ہوئے عمران خان نے خون کے آخری قطرے تک سیاسی مخالفین سے لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔
عمران خان نے ایک کمزور اور ہارے ہوئے لیڈر کے چہرے پر ایک بہادر اور پر عزم انسان کا جعلی نقاب اوڑھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں میں سرکاری انتظامیہ کے تعاون سے منعقد کیے گئے جلسوں میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف مبتذل اور ہتک آمیز گفتگو سے وہ درحقیقت موجودہ سیاسی صورت حال میں اپنا خوف چھپانے میں ناکام ہیں۔
اس سے پہلے چند روز پہلے قوم سے خطاب کے دوران بھی بیشتر مبصرین نے نوٹ کیا تھا کہ عمران خان کا اعتماد عنقا ہے اور ملک میں اپوزیشن کی طرف سے بڑھائے جانے والا سیاسی دباؤ ان کی باڈی لینگوئج اور طرز گفتگو سے پوری طرح عیاں تھا۔ وہاڑی میں جلسہ کے دوران عمران خان کی یہ کم ہمتی اور پریشانی زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ یوں بھی جب ملک کا ’با اختیار‘ وزیر اعظم اپنی گفتگو میں گالی گلوچ پر اتر آئے اور مسخروں کی طرح سیاسی مخالفین کے نام بگاڑ کر پکارے تاکہ وہ خود باوقار دکھائی دے تو اسے کسی لیڈر کی کمزوری اور بدحواسی ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم کی تقریر کا ملکی سیاسی صورت حال میں تجزیہ کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ ان کے اس بیان کا جائزہ لیا جائے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گئی تو وہ اپوزیشن سے شدید انتقام لیں گے۔ کسی برسراقتدار شخص کا یہ بیان جس میں وہ کسی شرم و حیا کے بغیر کھلم کھلا اپوزیشن کو ایک سیاسی موقف اختیار کرنے اور حکومت کے خلاف احتجاجی مہم چلانے پر انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں دے رہا ہو، کسی بھی منتخب لیڈر کی نا اہلی کی ٹھوس بنیاد ہونی چاہیے۔
جن مہذب جمہوری ملکوں کا حوالہ دے کر عمران خان پاکستان میں سیاسی ابتری کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں، ان میں سے کسی میں بھی اگر کوئی وزیر اعظم اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرے اور کسی سیاسی تحریک کی ناکامی کی صورت میں شدید انتقامی کارروائی کرنے کا اعلان کرنے کی غلطی کرے تو ملکی میڈیا اس کا جینا حرام کردے۔ رائے عامہ ایسے لیڈر پر عدم اعتماد کا اظہار کرے گی اور اس کے لئے اپنے عہدے پر کام کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
لیکن عمران خان جانتے ہیں کی ملک میں مختلف ہتھکنڈوں سے میڈیا کے پر کاٹنے کے بعد ایسا ’قومی میڈیا‘ تو موجود ہے جو ان کی ہر بدزبانی کو بہادری اور گیدڑ بھبکیوں کو سیاسی عزم کا نام دے کر وزیر اعظم کی شان میں قصیدے پڑھے گا لیکن ایسے گنے چنے صحافی ہی ہوں گے جو یہ سوال اٹھا سکیں گے کہ اپوزیشن لیڈروں کو ایک جلسہ عام میں دھمکیاں دینے والا لیڈر نہ صرف بزدل اور خوفزدہ ہے بلکہ وہ اس عہدہ پر فائز رہنے کا جمہوری جواز کھو چکا ہے۔
کسی جمہوری لیڈر سے قانون کی عمل داری پر یقین رکھنے، قانون و آئین کا احترام کرنے اور عدالتوں کی بالادستی کو قبول کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن عمران خان کا رویہ کسی ایسے بپھرے ہوئے ہجوم کی مانند ہے جو ملک کے مختلف علاقوں میں کسی بھی شخص پر الزام عائد کر کے بے گناہوں کو ملزم قرار دیتا ہے، پھر جج بن کر فیصلہ صادر کرتا ہے اور اس کے بعد جلاد بن کر سزا دینے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
عمران خان بھی اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے اور انہیں ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے ملنے والی پذیرائی کی وجہ سے اس قدر بدحواس اور ہراساں ہیں کہ اب ایسی ہی دھمکی و دباؤ کے ذریعے موجودہ صورت حال کو اپنے حق میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم کو سب سے پہلے تو یہ بتانا چاہیے کہ کیا وہ کوئی آسمانی اوتار ہیں کہ ان پر تنقید کرنے والا ہر شخص قابل تعزیر ہے؟ اور کیا کسی منتخب وزیر اعظم کے خلاف مروجہ سیاسی و آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے لئے گراؤنڈ ورک کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے اپوزیشن لیڈروں کو چور ڈاکو اور لٹیرا قرار دیا جائے، کرپشن کے بے بنیاد الزامات عائد کیے جائیں اور یہ دھمکی دی جائے کہ اگر وہ اس مشکل سے باہر نکل آئے کہ تو وہ اپنے مخالفین کو سخت سزا دلوانے کا اہتمام کریں گے۔ کیا ملک کے وزیر اعظم کو ایک جائز اور قانونی سیاسی طریقہ کار کے بارے میں ایسی دھمکیاں دینے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
یہ دھمکی کوئی بے اختیار اور کمزور شخص نہیں دے رہا۔ نہ ہی اپوزیشن کا کوئی لیڈر یہ کہہ رہا ہے کہ وزیر اعظم کو اقتدار سے علیحدہ کر کے اس کی بدعنوانی اور نا اہلی کی وجہ سے جیل میں بند کیا جائے گا بلکہ ملکی انتظامیہ کا با اختیار سربراہ سیاسی مخالفین کے ساتھ ’ناقابل بیان‘ سلوک کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ قیاس آرائیوں اور افواہوں کو پھیلنے سے روکنے کے لئے عمران خان کو واضح کرنا چاہیے کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے اور اپوزیشن اس میں ناکام ہوجاتی ہے تو وہ اس تحریک کے محرکین کے خلاف ایسا کیا ا اقدام کرنا چاہتے ہیں، جس سے اپوزیشن لیڈروں کو خوف کھانا چاہیے؟ کیا وہ انہیں کرپشن کے مزید مقدمات میں گرفتار کروائیں گے؟
کیا وہ اپنے زیر اختیار ایجنسیوں اور اداروں کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسائیں گے یا کسی آمرانہ دور کی یاد تازہ کرتے ہوئے جیلوں میں اپوزیشن لیڈروں کو جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا؟ آخر ایسا کون سا ناقابل بیان سلوک ہے جس کی دھمکی دینے کے لئے عمران خان کو جلسہ عام منتخب کرنا پڑا ہے تاکہ اپوزیشن ہی نہیں اس ملک کا ہر خاص و عام یہ جان لے کہ عمران خان اپنے مخالفین کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔
عمران خان پشتون روایت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس علاقے میں انتقام کی دیرینہ روایت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انتقام اور نسلوں تک دشمنی نبھانے کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان مغربی ممالک کو یہ سمجھانے کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں کہ پشتون علاقوں میں فوجی کارروائی کرنے والوں کو یہ قوم کبھی معاف نہیں کرتی۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان پر حملہ کرنے والی ہر فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ نام نہاد ’حقائق‘ بیان کرتے ہوئے عمران خان دراصل پشتونوں کے حقیقی ترجمان بن کر یہ دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ انتقام لینا چونکہ پشتون روایت کا حصہ ہے، اس لئے کسی حملہ آور کے خلاف گوریلا جنگ یا دہشت گرد کارروائیوں کو اس کے حقیقی روایتی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
یہ دلیل درحقیقت طالبان کی دہشت گردی کے لئے جواز فراہم کرنے کے لئے پیش کی جاتی رہی ہے لیکن اس سے عمران خان کے اپنے منفی مزاج اور تنگ نظری کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہاڑی میں اپوزیشن لیڈروں کو ’ولن‘ کے طور پر پیش کرنے کے بعد اس ذہنیت کے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ’کیا وہ جانتے ہیں کہ ناکامی کے بعد میں ان کے ساتھ کیا سلوک کروں گا‘ کا ایک آسان ترجمہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان درحقیقت اپنے سیاسی مخالفین کو مروانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
راقم الحروف کا ہرگز یہ ارادہ نہیں ہے کہ عمران خان کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالے لیکن ایک ڈھیلے ڈھالے اور غیر واضح فقرے میں اپوزیشن کو ایک جائز سیاسی کارروائی پر دھمکیاں دینے سے شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی ضرورتوں کے لئے ملک میں ہلاکت خیزی کی روایت تو موجود ہے اور وزیر اعظم پشتون روایت کے حوالے سے انتقام لینے کو ایک جائز سماجی رویہ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ گمان کیا جانا چاہیے کہ عمران خان کا بیان خطابت کی اضطراری کیفیت میں سرزد ہوا ہے اور وہ کسی صورت نہ تو سیاسی مقاصد کے لئے مخالفین کو جیل میں بند کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنے کا نیا سلسلہ شروع کریں گے۔
اس حوالے سے خاص طور سے اس خوش گمانی سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ مخالفین سے شدید نفرت کے باوجود عمران خان اپنے بے پایاں سرکاری اختیارات سے کسی اپوزیشن لیڈر کو جسمانی گزند پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ تاہم عمران خان کو جلد از جلد اپنے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی وضاحت کرنی چاہیے تاکہ ان کے حامی یا ماتحت سرکاری ادارے و افراد اس بیان کو حکومت کے سیاسی مخالفین کو ہر قسم کا نقصان پہنچانے کا اجازت نامہ نہ سمجھ لیں۔
وزیر اعظم کی دھمکی ہمہ قسم سیاسی و سماجی اخلاقیات کی خلاف ورزی کے علاوہ قانون کے بھی خلاف ہے۔ ایک با اختیار اور کسی حد تک مقبول سیاسی لیڈر جب ایسا بیان جاری کرتا ہے تو اس کے نہ چاہنے کے باوجود ناخوشگوار نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایسے بیان کے بعد اگر اپوزیشن کے کسی لیڈر کو کوئی گزند پہنچتی ہے تو حکومت کی طرف انگلیاں اٹھنا آسان ہو جائے گا۔ اس تند بیانی سے عمران خان نے اپنا سیاسی مقدمہ کمزور کیا ہے۔
حال ہی میں پیکا آرڈی ننس میں ترمیم کو جائز قرار دیتے ہوئے وہ خود اور ان کے معاونین اسے ’فیک نیوز‘ کی روک تھام کے لئے اہم قرار دیتے رہے ہیں۔ کیا اس قانون کا اطلاق وزیر اعظم کی تقریر پر بھی ہو گا اور اسے نشر یا شائع کرنے والے میڈیا ہاؤسز کو بھی پیمرا اور ایف آئی نوٹس جاری کرے گی؟ کیوں کہ اس تقریر میں کوئی بات حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ جن لوگوں کو وہ چور ڈاکو کہہ رہے ہیں، ان پر ان کی حکومت اپنی تمام تر خواہش اور ہمہ قسم ہتھکنڈوں کے باوجود کوئی الزام ابھی تک ثابت نہیں کر سکی۔
تحریک عدم اعتماد کےپیچھے کیا ہے: وزیراعظم کا انکشاف
عمران خان جس اسلامی اخلاقیات اور رسول پاک ﷺ کے طرز عمل کا حوالہ دیتے ہیں، اس کے تحت اس قسم کے بیان کو بہتان اور غیبت شمار کیا جائے گا۔ اور اگر مخالفین کو دھمکی دینے کے پہلو کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کم از کم سرکاری اختیار کے ناجائز استعمال کا اشارہ ہے اور بدترین صورت میں کسی سیاسی مخالف کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ وہاڑی میں عمران خان کی تقریر ایک ہارے ہوئے خوفزدہ لیڈر کا بیان ہے لیکن اس کی وضاحت نہ کی گئی تو یہ ملکی سیاست میں سیاسی بیان بازی میں تنزلی کا ایک سنگین اشارہ سمجھی جائے گی۔