پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین فوجی تعاون کا امکان کیسے بڑھ گیا؟

 شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات، تجارت کی بحالی اور ویزہ اجرا میں نرمی کے بعد اب دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے بھی اعلی سطحی عسکری روابط کا آغاز ہو گیا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے بنگلہ دیشی آرمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے فوج کے ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون میں بھی اضافے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ اور اسلام آباد کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی، سفارتی اور کاروباری سطح پر رابطے بڑھے ہیں۔

ماضی میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کہلانے والے ممالک کے دوطرفہ تعلقات میں گرمجوشی کے اس ماحول میں پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آئندہ ماہ ڈھاکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ پہلا دورۂ بنگلہ دیش ہو گا۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف عاصم منیر اور جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سیکیورٹی معاملات پر مفصل بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان مزید فوجی تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کیا گیا۔

آرمی چیف اور بنگلہ دیش کی فوج کے پرنسپل اسٹاف آفیسر نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان شراکت داری اور تعاون بیرونی اثرات سے بالاتر ہونی چاہیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے جنوبی ایشیا اور خطے میں امن اور استحکام کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت کا اعادہ کیا۔ ایک طرف بنگلہ دیش پاکستان کے قریب آ رہا ہے تو دوسری جانب اس کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔

حال ہی میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کے پیشِ نظر ڈھاکہ میں بھارت کے ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کیا گیا تھا۔ شیخ حسینہ نے بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ میں ملک کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے لیکن بھارت اب تک ایسا کرنے سے انکاری ہے۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں کئی ہفتوں کے پرتشدد مظاہروں کے بعد گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔ آٹھ اگست 2024 کو نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی بہت گنجائش پائی جاتی ہے جو کہ خطے کے بدلتے حالات میں اسٹریٹجک تعلقات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی بھارت مخالف ہے اور بنگالی عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعلقات استوار ہونے چاہئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نہ صرف عالمی سیاست، تجارت بلکہ عسکری تعاون کے بھی مواقع موجود ہیں اور بنگلہ دیش کی فوج کو پاکستان سے اچھے اور سستے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان مہیا ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں طرف یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ہم ایک نظریے پر آزاد ہوئے تھے اور اسی بنا پر بنگلہ دیش میں محمد علی جناح کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔

دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کے ماحول میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے قریب آنا ایک قدرتی عمل ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد اسلام آباد بھی نئی صورتِ حال کو ڈھاکہ کے ساتھ اعتماد سازی کے موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ عرصے میں ویزہ میں نرمی، تجارتی تعلقات میں اضافے کے بعد اب عسکری سطح پر روابط ہو رہے ہیں۔ سن کے بقول پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ تعاون سٹریٹجک تعلقات میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے کیوں کہ بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو تنگ کرتا رہتا ہے جس کا بہتر جواب مشترکہ طور پر دیا جا سکتا ہے۔

ہما بقائی کا کہنا ہےکہ پاکستان کی فوج مشرقِ وسطی کے ممالک، یورپ اور امریکہ کے ساتھ ملٹری ڈپلومیسی میں متحرک رہتی ہے اور بنگلہ دیش کے ساتھ حالیہ فوجی روابط بھی اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان سیاسی تعلقات کو استوار کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں کس حد تک آزاد حیثیت اختیار کر سکتا ہے یہ ابھی دیکھنا ہو گا کیوں کہ دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بیرونی دباؤ رہتا ہے۔ ہما بقائی نے کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے اسٹریٹجک تعلقات کی قدرتی صورت موجود ہے کیوں کہ دونوں ماضی میں ایک ملک رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی ہیجان پایا جاتا ہے اور جو بھی ملک سنجیدہ بات چیت اور معاملات میں تسلسل چاہتا ہے وہ جی ایچ کیو یعنی فوج کے ہیڈ کوارٹر ہی جاتا ہے۔ اسلیے دونوں ممالک کے مابین عسکری تعلقات بڑھنے سے خارجہ تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔

Back to top button