پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی مجبوری کی شادی مزید کتنا عرصہ چلے گی؟

سال 2022 میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اقتدار کی سیج پر ایک ساتھ ہیں تاہم دونوں جماعتوں میں گاہے بگاہے نوک جھونک کے سیشن بھی چلتے رہتے ہیں۔ کبھی پیپلز پارٹی کی جانب سے نون لیگ کی کارکردگی پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں تو کبھی وعدہ خلافیوں پر لیگی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ کبھی حکومتی فیصلوں پر کھل کر تحفظات کااظہار کیا جاتا ہے تو کبھی پیپلز پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اتحاد سے نکل جانے کی مشورے نما دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ایسے حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین  اختلافات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی اب اتحاد سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے پر مجبور ہو گئی ہے؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سامنے آنے والے تحفظات اور اعتراضات کے بعد پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی مجبوری کی شادی مزید کتنا عرصہ چلے گی؟

مبصرین کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فرنٹ فٹ پر جاکر اپنا کردار ادا کیا اور حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے اور پھر اچانک سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے مگر اب دوبارہ سیاسی اکھاڑے میں واپسی پر جہاں بلاول بھٹو پی ٹی آئی  قیادت پر تنقید کے نشتر برساتے دکھائی دیتے ہیں وہیں انھوں نے ن لیگ کو بھی اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے گورنر سردار سلیم حیدر پچھلے کئی مہینوں سے پنجاب حکومت پر سخت تنقید کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے تو مریم نواز حکومت کی بھجوائیں گئی سمریاں مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت کونون لیگ سے اتحاد کے فیصلے پر نظر ثانی کا مشورہ بھی دے دیا ہے۔

تاہم اس ساری صورتِ حال میں تازہ ترین پیش رفت یہ ہوئی کہ 27 دسمبر کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی برسی پر گئی پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت جب لاہور واپس پہنچی تو اس نےمسلم لیگ ن کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، ان کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ وہ یکطرفہ اور متنازع فیصلے کریں۔مسلم لیگ (ن) اور وفاقی حکومت نے رویہ تبدیل نہیں کیا تو اتحاد برقرار نہیں رہ سکے گا۔

یہ سارے بیانات اس تناظر میں آ رہے ہیں جب بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کوئی واضح کشیدگی نہیں ہے۔ تاہم جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ شاید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اڑھائی اڑھائی سال کے لیے اقتدار پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوئے ہیں اور پہلی باری مسلم لیگ ن لے گی۔تاہم دونوں جانب سے ایسی خبروں کی تردید کی جاتی رہی ہے لیکن حالیہ بیانات کے بعد کئی سیاسی مبصرین یہ دور کی کوڑی لانے میں سہولت محسوس کر رہے ہیں کہ شاید اڑھائی سالہ پروگرام درست تھا اور پیپلز پارٹی اب اس کی تیاری شروع کر چکی ہے۔

پیپلز پارٹی کے نون لیگ بارے تحفظات پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی رہنما اور پارلیمانی لیڈر علی گیلانی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن سے سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے ہر وعدے سے مکر جاتی ہے جو باتیں تحریری طور پر کی گئی تھیں ان پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ‘میٹنگ میں جب یہ لوگ ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے سارے کام اسی ٹیبل پر ابھی کے ابھی مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس کے بعد پھر ایسی خاموشی چھا جاتی ہے جیسے یہ ہمیں جانتے ہی نہ ہوں۔‘علی گیلانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘میرا یہ خیال ہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کیوں کہ ایسی میٹنگز میں مسلم لیگ ن کے جو رہنما موجود ہوتے ہیں، وہ بے بس دکھائی دیتے ہیں اور مجھے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں وزیراعلیٰ ہاؤس رکاوٹ دکھائی دیتا ہے۔‘

پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے مابین اختلافات بارے تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی میں ہلچل کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے کیوں کہ حکومتوں کو بنے ہوئے اب ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور سیاسی استحکام کے علاوہ معاشی استحکام بھی پیدا ہو رہا ہے۔‘اس کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیح نہیں ہو سکتی کہ پیپلز پارٹی اب زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے کیوں کہ موجودہ سیٹ اپ میں دور دور تک پیپلز پارٹی کا فی الوقت حکومت میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’پیپلز پارٹی کا اصل مسئلہ پنجاب میں اپنے سیاسی کردار کی بحالی ہے جو ممکن نہیں ہو پا رہی۔ حکومت سے اُن کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے۔ گورنر ہاوس میں ان کی حالیہ میٹنگ میں ان کے درمیان معاملات طے تھے۔ اور ان مطالبات کی روشنی میں ہی احکامات جاری ہوئے۔ بلاول صاحب پارٹی کے لیڈر ہیں وہ اپنے بیانات سے حکومت کو دفاعی محاذ پر رکھنا چاہتے ہیں۔‘

 سلمان غنی کہتے ہیں کہ ‘ایٹمی اور میزائل پروگرام پر پیپلز پارٹی کا مؤقف جرأت مندانہ ہے اور وہ اپنے اس مؤقف کے ذریعے قومی جذبات کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے مگر سیاسی حوالے سے انہیں اس کا کیا فائدہ ہوگا، یہ دیکھنا پڑے گا۔‘

 تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مجبوری کی شادی ہے اور کچھ بھی ہو جائے موجودہ سیٹ اَپ میں یہ ایک دوسرے کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اس حقیقت کا ادراک سب کو ہے۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن چوں کہ چھوٹی ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنا پریشر بنائے رکھنا چاہتی ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیح نہیں ہو سکتی۔‘

تاہم دوسری جانب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی خواہش پر بیٹھتے ہیں اور جو جو وہ کہتے ہیں ان کے جائز مطالبات پورے کیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہاں سب معاملات حل کرنے کے بعد باہر آ کر یہ ایسے بیانات دے کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

Back to top button