سیاستدان کب تک فوج سے مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کریں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان جیسے تمام وزرائے اعظم فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پھر اسی کے ہاتھوں فارغ ہوئے، وجہ یہ ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ فوج کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے ہیں، دوسری جانب دہائیوں تک ملک پر حکمرانی کرنے والے فوجی جرنیل ایک دوسرے کا اس حد تک ساتھ دیتے ہیں کہ آئین شکنی کرنے والے کا بھی دفاع کرتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید اقتدار میں لائے تھے۔ عمران خان نے باجوہ کو 2019ء میں ایکسٹینشن دیکر اُن کے احسان کا بدلہ اُتار دیا لیکن بعد میں خان اور باجوہ میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ ان اختلافات کے بعد ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ جیل پہنچ گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت ملازمت پوری نہیں کر سکا۔ کوئی قتل ہوا، کوئی پھانسی پر لٹکایا گیا، کوئی نااہل قرار دلوایا گیا اور کوئی وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا۔ ہر وزیر اعظم کو حکومت سے نکالنے کیلئے کسی سابق وزیر اعظم کی مدد سے سازش کی گئی۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ سیاستدان تو سیاستدان کے خلاف سازش کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن ایک جرنیل ہمیشہ دوسرے جرنیل کا دفاع کرتا ہے، جیسے جنرل راحیل شریف نے ہر قیمت پر جنرل پرویز مشرف کا تحفظ کیا اور اُسے ایک منٹ کیلئے بھی جیل نہیں جانے دیا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ سیاستدان بے شک سیاستدانوں کا دفاع نہ کریں اور ایک دوسرے کو جیل میں پھینک کر اپنی انا کی تسکین کرتے رہیں، لیکن انہیں آئین پاکستان کا ہر قیمت پر دفاع کرنا چاہئے۔ آج یہ آئین آپ کا اصل محسن ہے ۔ اسی آئین نے پاکستان کو ابھی تک جوڑ رکھا ہے۔ آئین کو کمزور کرنا احسان فراموشی ہے۔ جس آئین کے تحفظ کاحلف اٹھا کر آپ صدر، وزیراعظم، وفاقی وزیر بنتے یا دیگر عہدے حاصل کرتے ہیں اگر اُسی آئین کو آپ کمزور کر دیں گے تو آپ کو کبھی خیر نہیں ملے گی ۔ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جھوٹا حلف اُٹھانے والے احسان فراموش کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا ہے اُس میں کہیں پہ ذکر نہیں آتا کہ جب 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا تو آج کا بلوچستان موجودہ شکل میں پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ قلات 1948 میں پاکستان کا حصہ بنا۔ مطالعہ پاکستان کی کسی کتابوں میں نواب محمد خان جوگیزئی، میر جعفر خان جمالی اور اکبر بگٹی کا ذکر نہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ جعفر ایکسپریس بارے تو سب جانتے ہیں لیکن میر جعفر خان جمالی کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ 29جون 1947ء کو بلوچ قبائلی علاقوں کے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان کا اجلاس ہوا ۔ اکبر بگٹی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ 1958ء میں اکبر بگٹی بطور وزیر داخلہ ملک فیروز خان نون کی اُس حکومت کا حصہ تھے جس نے گوادر کو پاکستان میں شامل کیا ۔ گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے چند دن بعد جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کیساتھ ملکر مارشل لا لگا دیا۔ وزیر اعظم نون صاحب نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور اکبر بگٹی کو جیل میں پھینک دیا گیا۔ سکندر مرزا نے بطور سیکرٹری دفاع ایوب خان کو سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر سے اُٹھا کر آرمی چیف بنوایا اور پھر گورنر جنرل بن کر اس آرمی چیف سے مارشل لا لگوایا لیکن ایوب خان نے اپنے محسن سکندر مرزا سے چند دن بعد استعفیٰ لیکر جلا وطن کر دیا۔

حامد میر کے بقول آج کی نئی نسل کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ابتدا میں بنگال کو پاکستان میں شامل کرنے کی بجائے ایک علیحدہ ریاست بنانے کی سکیم تھی۔ یہ حسین شہید سہروردی تھے جنہوں نے 1946ء میں قرارداد دہلی کے ذریعہ بطور وزیراعظم متحدہ بنگال اپنے صوبے کو پاکستان کا حصہ بنانے کا اعلان کیا۔ پاکستان بن گیا تو ایوب خان کے دور حکومت میں سہروردی پر بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا گیا۔ جنرل ایوب خان کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن اُنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے تحریک پاکستان کے رہنماؤں کو غدار قرار دیا۔ مادِر ملّت فاطمہ جناح نے جنوری 1965ء میں اس فوجی آمر کیخلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو مادر ملّت کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا ۔

شیخ مجیب الرحمان سے خان عبد الولی خان، عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری اور مولانا مودودی تک مادر ملّت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ فوجی آمر نے ان سب کو بھی ملک دشمن قرار دیا اور دھاندلی کے ذریعہ مادر ملّت کو شکست دیدی۔ یہ دھاندلی پاکستان کے ساتھ سب سے بڑی احسان فراموشی تھی کیونکہ اس دھاندلی نے بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کر دیا ۔ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو سنبھالا۔ انہوں نے نوے ہزار جنگی قیدی بھارت سے رہا کرائے، 1973 ء کے آئین پر اتفاق کرایا اور ایٹمی پروگرام شروع کیا۔لیکن بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کیا، نیپ پر پابندی لگائی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن بھی شروع کیا۔ پھر 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کے اس بانی اور فوج کے محسن کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ 1988ء میں بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں لیکن اُنکی حکومت 20 ماہ بعد برطرف کر دی گئی۔ 1993ء میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ امریکا کی ناراضی مول لے کر شمالی کوریا گئیں، انہوں نے پاکستان کو غوری میزائل کی ٹیکنالوجی دلوائی لیکن دوسری مرتبہ بھی اپنی وزارت عظمی کی مدت پوری نہ کر سکیں۔ نواز شریف نے 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا لیکن ایک سال کے بعد اس ہیرو کی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے اسے جیل میں قید کر دیا گیا۔ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن تینوں مرتبہ اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کر سکے ۔

پشاور بم دھماکے میں نشانہ بننے والے مفتی منیر شاکر کون تھے؟

جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں مسلم لیگ (ن) کو ختم کرنے کیلئے مسلم لیگ (ق) بنائی۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت اس نئی جماعت میں شامل ہوگئے۔

جنرل مشرف کے اقتدار کو طوالت بخشنے میں چوہدری برادران کا بہت کردار تھا لیکن2008ء کے الیکشن میں اسی مشرف نے چوہدریوں کیخلاف سازش کی۔ یہی وجہ تھی کہ بعد میں چوہدریوں نے آصف زرداری کے ساتھ ملکر جنرل مشرف کو اقتدار سے نکال پھینکا۔ عمران کے ساتھ بھی وہی ہوا جو نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ نواز شریف بھی فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے اور فوجی جرنیلوں نے ہی انہیں اقتدار سے نکال پھینکا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ فوج کے خلاف مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے ہیں۔

Back to top button