بشری بی بی کی بھاگنے کی عادت عمران کو کتنی مہنگی پڑے گی؟

تحریک انصاف کے یوتھیوں کا انقلاب کا خواب ایک سراب نکلا اور انکی یہ خوش فہمی بھی غلط فہمی ثابت ہوئی کہ اس مرتبہ ان کی قیادت میدان سے بھاگے گی نہیں، یوتھیوں کا خیال تھا کہ اس مرتبہ بشری بی بی ان کے ساتھ ہیں لہذا وہ نہ تو علی امین گنڈاپور کو بھاگنے دیں گی اور نہ ہی خود بھاگیں گی، لیکن شاید وہ بھول گئے تھے کہ بشری بی بی کو تو بھاگنے کی پانی عادت ہے لہٰذا وہ حسب عادت اس بار علی امین گنڈاپور کے ساتھ ہی بھاگ نکلیں۔ یہ دونوں تو بھاگ کر مانسہرہ جا پہنچے لیکن اس کے نتیجے میں اب عمران خان کی قید اور بھی لمبی ہوتی نظر آ رہی ہے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ کپتان کی فائنل کال اپنے حتمی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ کتنے دعوے کیے گئے کہ ہم کفن باندھ کر آئیں ہیں۔ کتنے نعرے لگائے گئے کہ میں آخر تک آپ کے ساتھ ہوں۔ کتنے بڑھکیں ماریں گئیں کہ اگر خان رہا نہیں ہوا تو ہم تاعمر دھرنا دیں گے۔ سوشل میڈیا پر کتنے ٹرینڈ بنائے گئے کہ ’خان نہیں تو کچھ نہیں‘۔ کتنے پوسٹر چھپوائے گئے جن پر لکھوایا گیا کہ ’خان ہم تجھے رہا کروانے چل پڑے ہیں‘۔ کتنے بینر بنوائے گئے جن پر جلی حروف تک لکھوایا گیا کہ ’خان کی رہائی تک ہم کفن پہنے بیٹھے ہیں۔

بشریٰ نے علی امین گنڈا پور سے بڑھ کر لوگوں کا حوصلہ بڑھایا۔ انہوں نے مظاہرین کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں۔ آخری سانس تک کارکنوں کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کفن پہننے کا نعرہ لگانے والے سب سے پہلے بھاگے۔ آخری سانس تک دھرنا دینے والی نے ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر بھاگنے میں سب سے تیزی دکھائی۔ جو یہ کہتے تھے کہ اب ہماری لاشیں ہی واپس آئیں گی وہ رینجرز کا آپریشن کلین اپ شروع ہوتے ہی کارکنوں کو مار کھانے کے لیے ڈی چوک میں چھوڑ۔کر اپنی بلٹ پروف گاڑی میں فرار ہو گئے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اب تو بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور کے فرار کی ویڈیو فوٹیج بھی سامنے آ گئی ہے جس میں سابقہ خاتون اول اپنی گاڑی چھوڑ کر گنڈاپور کے ساتھ پتلی گلی سے نکلتی دکھائی دیتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ پہلے انہیں خان نے ترقی کے نام پر دھوکا دیا۔ 350 ڈیم بنانے کے خواب دکھائے۔ ایک ارب درخت لگانے کے سپنے ان کی آنکھوں میں سجائے۔ ان کو صحت کے سونامی کا مژدہ سنایا۔ ان کو تعلیمی انقلاب کی خوشخبری سنائی۔ ان کو 50 لاکھ گھروں میں بسانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب وعدے جھوٹ نکلے۔ یہ سب خواب ادھورے ہی رہے۔

عمار مسعود کے مطابق 9 مئی کا واقعہ کارکنوں سے کروایا گیا۔ ان کو ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے کی ترغیب دی گئی۔ سرکاری عمارات پر حملے کرنے کے لیے بھڑکایا گیا۔ خان کے مقدر میں تو جیل ہوئی مگر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی اذیت ختم نہیں ہوئی۔ ان کی قیادت علی امین گنڈا پور نے سنبھال لی جو اب تک 3 دفعہ ان کے ساتھ دھوکا کر چکے ہیں۔ وہ لاؤ لشکر لا کر وفاق پر حملہ کرتے ہیں، کارکن گرفتار کرواتے ہیں۔ اسلحہ برداوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور خود فرار ہو جاتے ہیں۔ اس بار پی ٹی آئی کے کارکنوں کا خیال تھا کہ بشریٰ بی بی ساتھ ہیں لہٰذا اس مرتبہ کوئی نہیں بھاگے گا۔ لیکن انکا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور سب نے دیکھا کہ بشری ڈنڈا پروگرام شروع ہوتے ہی علی امین گنڈا پور کے ساتھ فرار ہو گئیں۔

عمرا کہتے ہیں کہ ایک لمحے کو سوچیں ان کے دونوں کے قائدین کے فرارکے بعد کارکنوں پر کیا گزری۔ بھگدڑ میں کوئی کچلا گیا، کسی کی موٹر سائیکل خاکستر ہوئی، کسی کا سر پھٹا، کسی کو گرفتار کر لیا گیا، کوئی پولیس کے ڈنڈا برداروں کی زد میں آیا، کسی کے خلاف ریاست سے بغاوت کا مقدمہ درج ہوا، کسی پر دہشت گردی کی دفعہ ڈال دی گئی۔ اب نہ ان کارکنوں کا کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی ان کا مدد گار ہے۔ کوئی ان کی وکالت کرنے والا نہیں کوئی ان کی ضمانتیں بھرنے والا نہیں۔

یہ غریب لوگ انقلاب کے نام پر جمع کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے عزائم تو دہشتگرادنہ تھے۔ ان کے پاس آتشیں اسلحہ بھی تھا۔ ان کے پاس آنسو گیس کے شیل بھی تھے۔ ان سے پستول بھی برآمد ہوئے اور غلیلیں بھی۔ ڈنڈوں سے بھی یہ لیس تھے اور لوہے کے راڈ بھی ان کے پاس دھرے تھے۔ گولیوں کے صندوق بھی ان کے پاس تھے، کلاشنکوف جیسی  بندوقیں بھی ان کے سامان میں دھری تھیں۔ ان کے ارادے دہشتگردانہ تھے اور یہ ملکی امن و سکون برباد کرنے کے درپے تھے۔ یہ امن و امان کے دشمن تھے۔

اسموگ تدارک کیس : عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے والے اسکولوں کو چلنے نہیں دیں گے، لاہور ہائی کورٹ

لیکن بقول عمار مسعود سب لوگ ایسے نہیں تھے۔ کچھ ایسے تھے جن کو نہ انقلاب سے مطلب تھا نہ خان سے۔ وہ بس اس لیے آئے تھے کہ ان کے ایم پی اے نے ان کے گھر راشن ڈالونے کا وعدہ کیا۔ کچھ ایسے تھے جو بس چند ہزار روپوں کے خاطر اس احتجاج میں شریک ہوئے۔ جب ریاست نے رات گئے ایکشن کیا تو وہ اپنے جوتے بھی چھوڑ کر بھاگے اور انہی میں سے بہت سے گرفتار بھی ہوئے۔

عمار کا کہنا ہے کہ میرا دل تو چاہتا کہ خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے پوچھوں کہ تم جو عیش و عشرت میں پل رہے ہو، تو کیا تم کو خبر ہے کہ تمارے باپ نے ذاتی مفاد کے لیے  کتنے گھروں کے چراغ بجھا دیے، کتنی عورتوں کو بیوہ کروا دیا۔ کتنے گھروں کا سکون چھین لیا۔ وہ کہتے ہیں کے پی کے غیور باشعور جوانوں کبھی تو خان کا گریبان پکڑ کر پوچھو کہ ہمارا خون تو تم ارازنی سے سڑکوں پر بہاتے ہو، ہمیں تو تم جانورں کی طرح ہر احتجاج میں لاتے ہو اور تمہاری اپنی اولاد کبھی لندن میں کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئی۔ کبھی تو پوچھو  خان سے کہ تم نے پشتونوں کے خون کا سودا کس کس سے کیا اور اس صوبے کے جوانوں کو ملک دشمن قوتوں کو کتنے کا بیچا۔

Back to top button