اپنے 100 ساتھی مروانے والا لالچی پولیس کانسٹیبل کیسے پکڑا گیا؟
پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش حملے کے مبینہ سہولت کار پولیس اہلکار کی گرفتاری کے اعلان کے بعد سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ سوال زیر گردش ہے کہ پولیس لائنز حملے میں ملوث پولیس اہلکار ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک حکام سے کیسے چھپا رہا اور اتنے عرصے بعد سکیورٹی اداروں کے شکنجے میں کیسے آیا؟
خیال رہے کہ یہی سوال جب آئی جی خیبرپختونخوا سے دوران پریس کانفرنس کیا گیا تو انھوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز برتا تاہم اب سینیئر صحافی عمر چیمہ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال جنوری میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد تحقیقات کاروں نے ایک کثیر جہتی تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ تحقیقات کاروں نے ماضی کے کیسز کی چھان بین کی اور کئی لوگوں کا سراغ لگایا۔ انہوں نے نہ صرف ماضی کے خود کش حملوں کا جائزہ لیا بلکہ بمباروں کے رشتہ داروں کے انٹرویوز بھی کئے تاکہ ممکنہ طور پر کسی بھی اہم بات سے پردہ اٹھایا جا سکے۔
عمر چیمہ کے مطابق ان تحقیقات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو افغان شہری امتیاز نامی شخص کا پتہ چلا جسے تاؤرا شیپّا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس کا بھائی بھی خودکش بمبار تھا اور چچا طالبان کمانڈر تھے۔ امتیاز نے انکشاف کیا کہ وہ بمبار کو جانتا تھا اور افغانستان میں اُس سے ملاقات بھی کر چکا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوا تو وہ بمبار سے رابطے میں تھا۔
دریں اثنا، تحقیقات کاروں کی ٹیم نے ممکنہ طور پر اس واقعے میں جماعت الاحرار کے ملوث ہونے پر تحقیقات شروع کی۔ پولیس کو شک ہوا کہ اس واقعے میں پولیس کا اپنا ہی کوئی آدمی ملوث ہو سکتا ہے، اس طرح جماعت الاحرار کی قیادت کے ساتھ ملتے جلتے نسلی تعلقات رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی فہرست مرتب کی گئی۔ امتیاز نے ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کیا جس کے بارے میں اس کے خیال میں وہ پشاور کے گرد بمباروں کی نقل و حمل میں ملوث تھا، اس کی شناخت صرف ’’عرفان شنواری‘‘ کے نام سے ہوئی، کیونکہ مشتبہ شخص ہمیشہ ماسک اور ہیلمٹ پہنتا تھا۔ تاہم مزید تحقیقات سے جلد ہی شک یقین میں بدل گیا۔ عرفان دراصل پولیس کانسٹیبل محمد ولی تھا اور اپنی شناخت چھپانے کیلئے نہ صرف ہمیشہ ماسک پہن کر رکھتا تھا بلکہ اس نے شرپسند حلقوں میں خود کو اپنے اصل نام کی بجائے عرفان کے نام سے متعارف کروا رکھا تھا۔ حکام کی جانب سے شک یقین میں بدلنے کے ساتھ ہی پولیس کانسٹیبل کی کڑی نگرانی شروع کر دی گئی اور بالآخر اسے موقع واردات سے ٹھوس ثبوتوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔
بعد ازاں دوران تحقیقات پولیس کانسٹیبل محمد ولی پولیس لائنز مسجد دھماکے کے علاوہ اور کئی دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث نکلا۔
دوران تفتیش گرفتار پولیس کانسٹیبل نے پولیس لائنز میں ہوئے حملے میں ملوث سمیت دیگر کئی کارروائیوں کا اعتراف کر لیا۔ پولیس کانسٹیبل کی فراہم کردہ تفصیلات کی پولیس نے کال ڈیٹا ریکارڈز یعنی سی ڈی آر اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ دیگر شواہد سے تصدیق بھی کی۔ جس کے بعد ہی پیر کی شام کے پی پولیس چیف نے ایک پریس کانفرنس کی جہاں انہوں نے محمد ولی کی گرفتاری اور اقبالیہ بیان کا ذکر کیا۔ دوران پریس کانفرنس کانسٹیبل ولی کا اپنے اقبالی بیان میں کہنا تھاکہ اسے پولیس لائنز خودکش حملے کیلئے دو لاکھ روپے دیے گئے تھے۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ اسے عسکریت پسند تنظیم سے تقریباً پچاس ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے۔ یعنی اس شخص نے پولیس لائن مسجد میں دھماکے کی سہولت کاری کے دو لاکھ روپے وصول کیے۔ اس دھماکے میں 100 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس ظالم شخص نے ایک ساتھی کی جان کا سودا دو ہزار روپے میں کیا۔‘