ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی 45 سال بعد عدالتی قتل کیسے قرار پائی ؟

سپریم کورٹ نے 45 سال قبل سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کیخلاف 13 سال قبل دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر رائے دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سابق وزیراعظم کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا، سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں یہ ریفرنس دائر کیا تھا اور فیصلہ آنے تک 13 برسوں کے دوران اس صدارتی ریفرنس پر مجموعی طور پر 12 سماعتیں ہوئیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے اس صدارتی ریفرنس پر سات سماعتیں کرنے کے بعد چار مارچ کو اس صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے کو محفوظ کیا تھا۔رائے میں کہا ذوالفقار علی بھٹو وَلد شاہ نواز بھٹو، سکنہ المرتضیٰ، لاڑکانہ۔‘’کیہ جناب (کیا جناب)؟ حیرت سے یہ کہتے ہوئے (لاہور کے) اچھرہ تھانے کے ایس ایچ او انسپیکٹر عبدالحئی کے ہاتھ سے قلم گِر گیا، 1974 میں 10 اور 11 نومبر کی رات کے آخری پہر ہونے والے اس مکالمے کے راوی اور تب قومی اسمبلی کے رکن اور تحریک استقلال کے سیکرٹری اطلاعات احمد رضا قصوری کے مطابق انھوں نے اپنا کہا دُہرا دیا۔احمد رضا قصوری، ان کی والدہ اور خالہ چند گھنٹے پہلے ہوئے اس حملے میں بچ گئے تھے جس میں ان کے والد شدید زخمی ہوئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انھیں کسی پر شک ہے تو انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا۔گزشتہ سال ایک یوٹیوب چینل ٹی سی ایم کو انٹرویو میں احمد رضا قصوری نے بتایا کہ وہ ابھی پولیس سے یہی لکھوانے کی کوشش کر رہے تھے کہ لاہور کے یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال کے سرجن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ ان کے والد نواب محمد احمد خان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔احمد رضا قصوری نے اس حملے کا ہدف خود کو قرار دیتے ہوئے پولیس کے سامنے اپنے بیان میں الزام ذوالفقار علی بھٹو پر دھرا تھا۔سندھ کے سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے ہاں پانچ جنوری 1928 کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے پولیٹیکل سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لنکنز ان سے وکالت پاس کی۔ 1953 میں کراچی واپس آئے اور قانون پڑھانے کے ساتھ کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔1957 اور 1958 میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری وفود میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اسی سال جنرل محمد ایوب خان نے 27 اکتوبر کو مارشل لا لگایا تو اس 30 سالہ نوجوان وکیل کو اپنا وزیر تجارت بنایا۔بعد میں چھ سات وزارتیں ان کے پاس رہیں۔ 24 جنوری 1963 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ بنے لیکن 17 جون 1966 کو ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی راہیں جدا ہو گئیں۔20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان، جو 1969 میں ایوب خان کے بعد برسراقتدار آئے، نے آئین کی عدم موجودگی میں بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اپنے اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 21 اپریل 1972 کو دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔14 اگست 1973 کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔ 1966 میں جب بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہو کر ٹرین سے واپس لاڑکانہ جاتے ہوئے لاہور آئے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں قصوری نمایاں تھے۔قصوری کہتے ہیں کہ لاہور ریلوے سٹیشن ہی پر بھٹو کے سیلون میں ان سے ملاقات ہوئی اور دوستی کا آغاز ہوا۔ پھر بھٹو کو قصور آنے کی دعوت دی گئی۔دسمبر 1970 میں احمد رضا قصوری پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قصور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ مگر انتخابات کے کچھ عرصہ بعد پارٹی کے چیئرمین سے ان کے اختلافات کا آغاز بھٹو کے اس اعلان سے ہوا کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکا میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے نہ ہی کسی اور رکنِ اسمبلی کو ایسا کرنے دیں گے۔ بعض اخباروں نے لکھا کہ ایسا کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔احمد رضا قصوری اس اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا پہنچ گئے لیکن یہ اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ یہیں سے بھٹو اور قصوری کے درمیان فاصلے بڑھنے شروع ہوگئے۔بھٹو نے معراج خالد، حنیف رامے اور یعقوب خان کے الزامات کی روشنی میں احمد رضا قصوری کو پارٹی رکنیت سے معطل کر دیا۔ اگلے دن قصوری نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ سے برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔چھ جون 1971 کو پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ نے قصوری کو باضابطہ طور پر پارٹی کی رکنیت سے خارج کر دیا اور یوں بھٹو اور قصوری کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوگئی جس کے بعد 11 نومبر 1974 کا واقعہ پیش آ گیا۔ قصوری نے اپنے والد کے قتل کے لگ بھگ ایک ہفتے بعد لاہور کے سیشن جج کی عدالت میں نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا استغاثہ دائر کر دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر1977کو پہلی مرتبہ تعزیرات ِپاکستان کے تحت ’قتل کی سازش‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن 10 روز بعد ان کی ضمانت ہو گئی۔17 ستمبر کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل میں انھیں پھر گرفتار کیا گیا مگر اس بار مارشل لا قوانین کے تحت اور پھر ایک ماہ بعد بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے اپنی سربراہی میں جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گل باز خان پر مشتمل پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا اور بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو بینچ سے باہر رکھا گیا۔18 مارچ 1978 کو ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنا دی۔سپریم کورٹ نے چھ فروری 1979 کو چار اور تین کے تناسب سے منقسم فیصلے میں ہائیکورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی تاہم اس میں صدر کے پاس رحم کے اختیار کو استعمال کرنے کا راستہ دکھایا گیا۔یکم اپریل 1979 کو وزارت قانون کے جوائنٹ سیکریٹری ارشاد خان اور جنرل کے ایم عارف بھٹو کیس کی سمری لے کر ضیا الحق کے پاس گئے۔روائیداد خان کے مطابق ارشاد خان نے انھیں بتایا کہ ’جب وہ سمری لے کر صدر کے پاس گئے تو صدر نے رحم کی عرضداشت کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور بغیر پڑھے ہی مسترد کر دیا۔ملک کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو رات کے دوسرے پہر پھانسی دے دی گئی۔

جنرل ضیاء نے مولوی مشتاق سے ملکر بھٹو کو سزا کیسے دلوائی ؟

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق اس کے بعد ملک میں سیاست یکسر تبدیل ہو گئی۔ ’سیاسی جماعتوں کے مابین نفرتوں میں شدت آ گئی۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو دو کیمپ بن گئے اور ریاست کو بطور ِتاوان پانچ مرتبہ صوبائی حکومت اور تین مرتبہ وفاقی حکومت پیپلزپارٹی کو دینا پڑی۔

Back to top button