آصف زرداری بطور صدر سیاسی تاریخ میں کیسے یاد رکھے جائیں گے ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ سیاسی فراست رکھنے والے آصف علی زرداری پاکستانی سیاسی تاریخ کے واحد صدر ہیں جنہوں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنے صدارتی اختیارات کم کیے اور بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وفاق کو بچانے کے لیے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ آصف زرداری نے بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے گیارہ برس طویل جیل کاٹی جس کے اثرات آج بھی ان کی شخصیت پر نظر آتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنائے گئے آصف زرداری نے بطور صدر اٹھارہویں آئینی ترمیم میں صوبائی حقوق کی ضمانت دے کر وفاق پاکستان سے وہ وعدہ پورا کیا جو 1973ء سے لٹکتا چلا آرہا تھا۔ لہذا یہ کہا جائے تو بے جانا ہوگا کہ اپنے قلم سے اپنے ہی اختیارات کم کرکے منتخب پارلیمان کے سپرد کرنے والے آصف زرداری تاریخ میں بطور صدر اپنے سیاسی فہم اور فراست کے لیے یاد رکھے جائیں گے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ 23 ؍مارچ کو یوم جمہوریہ کی مرکز ی تقریب سے حسب روایت سربراہ مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کیا۔ کل بارہ منٹ کی تحریری تقریر پڑھنے میں ایک دو جگہ پر انہیں الفاظ کی ادائیگی میں کچھ دقت پیش آئی۔ اس بے معنی قضیے کو لے کر سوشل میڈیا پر بیٹھے انقلابی چوزوں نے ہڑبونگ مچا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے آصف زرداری کو بھی اردو پڑھنے میں محمد علی جناح کی طرح مشکل پیش آتی ہے۔ ایک مرتبہ جب ان سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو جناح نے کہا کہ ’میں اتنی اردو جانتا ہوں کہ اپنے ملازمین سے بات کر سکوں۔ مجھے عدالت میں اردو بولنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ویسے میں گجراتی اچھی طرح جانتا ہوں‘۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ایک سیاسی مدبر کی قامت آئینی، معاشی اور تمدنی امور کی فہم سے طے ہوتی ہے، زبان دانی سے نہیں۔ 6 ستمبر 1965ء کو الطاف گوہر کی لکھی تقریر میں ایک لفظ ’ولولہ‘ کا تلفظ جنرل ایوب خان نے جیسے ادا کیا تھا، وہ مضحکہ خیز تھا۔ اکتوبر 1971ء میں ایرانی شہنشاہیت کے اڑھائی ہزار سالہ جشن کے موقع پر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے جو گل کھلائے تھے، کسی تقریر میں تلفظ کا تسامح اس سے بڑی قومی شرمندگی تو آج تک نہیں پیش آئی۔ دہلی میں پلے بڑھے ضیاالحق کا شین قاف بہت اچھا تھا۔ انکی جانب سے سینئیر صحافی نثار عثمانی کو الٹا لٹکانے کی دھمکی فصاحت کے کس درجے میں شمار کی جائے گی۔ اگر ذاتی احترام مانع نہ ہوتا تو میں اس بزرگ صحافی کا نام بھی لکھ دیتا جنہوں نے گورنر ہائوس پنجاب میں ضیاالحق کو تجویز دی تھی کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار صحافی خالد چوہدری اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دی جائے۔

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ مارچ 1988 ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط سے پہلے جنرل ضیاالحق نے وزیر خارجہ زین نورانی کو خواتین وزرا کی موجودگی میں جو گندی گالیاں دی تھیں وہ شائستہ بیانی کا کون سا پیرایہ تھا۔ ستمبر 2005ء کو جنرل پرویز مشرف نے کینیڈا کے دورے میں خواتین کے بارے میں جن گندے خیالات کا اظہار کیا تھا اس کی مذمت کینیڈا کے وزیر اعظم پال مارٹن نے اقوام متحدہ میں کی تھی۔ محمد خان جونیجو سندھی تھے اور قدرتی طور پر ان کا لب و لہجہ سندھی اصوات سے متاثر تھا۔ ضیاالحق کے حواری محمد خان جونیجو کے تلفظ کا مذاق اڑاتے تھے۔

وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ عمران خان عسکری کندھوں پر سوار ہو کر حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم ہائوس پہنچے تو اپنا شناختی کارڈ بنی گالا بھول آئے تھے۔ موصوف حلف اٹھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو انہیں یہ معلوم نہیں ہو پا رہا تھا کہ عینک کس جیب میں رکھی ہے۔ وہ بعض ایسے الفاظ کا تلفظ ادا نہیں کر سکے جو بعد میں ’اسلامی ٹچ‘ کا متن قرار پائے۔ صدر ممنون حسین نے بار بار حلف کے الفاظ ادا کرنے میں عمران خان کی مدد کی۔اب کچھ ذکر زرداری صاحب کی لسانی صلاحیت کا ہو جائے۔ 17 اور18 مئی 1999 ء کی درمیانی رات پولیس نے خبر دی کہ آصف علی زرداری نامی قیدی نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب پر تشدد کیا گیا ہے۔ خود کشی کی یہ منفرد کوشش تھی کہ قیدی نے اپنی زبان پر زخم لگائے تھے۔

سکیورٹی خدشات : مولانا کا عید پر پارٹی اراکین سے نہ ملنے کا اعلان

وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کی سیاست میں سندھ کے تحمل اور بلوچ روایت کے دائو پیچ کا مکسچر پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اس تشدد کی پولیس رپورٹ فروری 2005ء میں عین اس روز درج کروائی جب وہ بینظیر بھٹو کے ہمراہ نواز شریف سے ملاقات کرنے جدہ پہنچ رہے تھے۔ اس رپورٹ میں سیف الرحمن، مجیب الرحمن، رانا مقبول، فاروق امین اور نجف مرزا کو نامزد کیا گیا تھا۔ مقصد میاں نواز شریف کو باور کروانا تھا کہ ہم جسٹس قیوم والے ٹیلی فون سے لے کر پولیس تحویل میں وحشیانہ تشدد جیسے انتقامی اقدامات کو بھلا کر جمہوری مفاہمت کے لیے آپ کے پاس آرہے ہیں۔ اس تشدد کے بعد زرداری صاحب کو بعض الفاظ کی ادائیگی میں مشکل پیش آنے لگی۔ اب جبکہ ان کی عمر ستر برس ہو چکی ہے اور چال ڈھال میں ضعف کے آثار ہیں، زرداری صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں بمشکل دو یا تین مقامات پر کسی قدر جھجک کا شکار ہوئے۔ لیکن سوال الفاظ کی ادائیگی میں کمزوری کا نہیں، سیاست اگر قادر الکلامی کا نام ہوتی تو عطااللہ شاہ بخاری جیسے خطیب اردو زبان پر کہیں زیادہ عبور رکھتے تھے۔ سیاست قومی مفاد کی سوجھ بوجھ اور اس کے لیے قربانیاں دینے کا نام ہے۔ آصف زرداری نے بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے گیارہ برس جیل کاٹی لیکن پھر بھی ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر وفاق سے اپنی وابستگی کا ایسا ثبوت دیا جو پارلیمنٹ میں نازیبا حرکتیں کرنے والوں کے حیطہ خیال سے باہر ہے۔ حالیہ جمہوری تاریخ میں شاید ہی کسی سیاسی رہنما نے اپنے قلم سے اپنے ہی اختیارات کم کرکے منتخب پارلیمان کے سپرد کیے ہوں۔ لہٰذا آصف زرداری ہماری سیاسی تاریخ میں لسانی فروگزاشتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی فراست کے لیے جانے جائیں گے۔

Back to top button