عمراندار جج منصور علی شاہ کا غصہ کیسے ٹھنڈا ہو پائے گا؟
سپریم کورٹ میں تاحال گروپنگ اپنے عروج پر ہے۔ عمراندار ججز اقلیت میں ہونے کے باوجود تاحال اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جس کا وہ وقتا فوقتا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔چیف جسٹس تعینات نہ کئے جانے کے بعد مسلسل خطوط کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کرنے والے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے اب سپریم کورٹ کے انتظامی جج کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات میں تعطل کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کو ایڈمنسٹریٹو جج سپریم کورٹ مقرر کیا تھا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اب جب مختلف فائلز ان کے پاس بھیجی گئیں تو انہوں نے سپریم کورٹ کے انتظامی جج کی حیثیت سے ذمہ داری ادا کرنے سے معذرت کر لی اور بھیجی گئیں انتظامی فائلوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وہ انتظامی جج کےعہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ اس لئے اب وہ ان فائلز پر دستخط نہیں کرینگے۔
خیال رہے کہ انھوں نے ذمہ داریاں ادا کرنے سے پہلی بار انکار نہیں کیا اوہ اس سے قبل ججز کمیٹی اور سپریم کورٹ کے خصوصی بخنچ کا حصہ بننے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی نے چیف جسٹس کے لیے جسٹس یحییٰ آفریدی کا انتخاب کیا تھا اور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے تھے۔ جس کے بعد متعدد مواقع پر جسٹس منصور علی شاہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور موجودہ چیف جسٹس یحیی آفریدی کو لکھے گئے خطوط کے ذریعے کھل کر اپنے غصے کا اظہار کر چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں جسٹس منصور علی شاہ نے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ کر رولز میں آئینی بینچ کے لیے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار طے کرنے پر زور دیا تھا۔خط کے مطابق آئینی بینچ میں کتنے ججز ہوں اس کا طریقہ کار بنانا بھی ضروری ہے اور آئینی بینچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کس جج نے آئینی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے، کمیشن بغیر پیمانہ طے کیے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بینچ تشکیل دے چکا ہے۔ جو مناسب نہیں۔
قبل ازیں، ستمبر میں جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے بعد نئی تشکیل کردہ ججز کمیٹی کو خط لکھ کر اس کا حصہ بننے سے معذرت کرلی تھی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنانے جبکہ سپریم کورٹ اپنے رولز بنانے میں خود مختار ہے اور آرڈیننس کے اجرا کے باوجود پہلے سے قائم کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی۔ تاہم ان کے خط کے باوجود نئی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
سانحہ 9 مئی: حسان نیازی سمیت مزید 60 مجرمان کو سزائیں سنا دی گئیں
واضح رہے کہ جسٹس یحیی آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد افواہیں گرم تھیں کی جسٹس منصور علی شاہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے تاہم 7 دسمبر کو ایک تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے مستعفی ہونے کی خبروں کو مسترد کردیا تھا۔اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ ’کیا آپ کے مستعفی ہونے سے متعلق افواہیں درست ہیں؟ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ’یہ سب قیاس آرائیاں ہیں‘۔انہوں نے کہا تھا کہ ’بھاگ کر نہیں جائیں گے، جو کام کر سکتا ہوں وہ جاری رکھوں گا‘۔