ابھی نئے آرمی چیف کے بارے میں کچھ نہیں سوچا
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کے بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچا ،مائنڈ گیم کا ماہر ہوں‘ حکومت کہیں نہیں جارہی بلکہ مزید تگڑی ہوکر آئے گی۔
اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان نے آج یوٹیوبرزسے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران نئے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کے بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچا ، نومبر ابھی کافی دور ہے ، وقت آنے پر فیصلہ کریں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کیا جارہا ، بدقسمتی سے عثمان بزدار آسان ہدف ہیں کیوں کہ وہ میڈیا پر نہیں آتے ، مکمل اور منظم منصوبہ بندی کے تحت حکومت کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ، جو رکن فلور کراسنگ کرے وہ نااہل ہوجائے گا ، اپوزیشن مفاد پرستوں کا گلدستہ ہے جس کو عمران خان نے اکھٹا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑے گا ، حکومت کہیں نہیں جارہی، اپوزیشن بوکھلاہٹ کا شکار ہے ، جہانگیر ترین غداروں کا ساتھ نہیں دیں گے ، غیر ملکی ہاتھ ہماری حکومت کے پیچھے ہیں ، فوج پاکستان کے ساتھ ہے ، آئی ایم ایف کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کا خطرہ ہے لیکن ہم دیکھ لیں گے ، وزیراعطم نے کہا کہ اپوزیشن اس وقت مائنڈ گیم کھیل رہی ہے جس کا میں ماہر ہوں ، اپوزیشن والے ہمارے اراکین کو 18 کروڑ روپے تک کی آفر کر رہے ہیں ، میں نے اراکین سے کہا پیسے لے کر غریبوں میں بانٹ دیں ، اپوزیشن جمہوریت کے نام پر ہارس ٹریڈنگ کر رہی ہے، اپوزیشن اپنی چوری بچانے کیلئے پیسہ استعمال کر رہی ہے ، اپوزیشن غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرنے کیلئے مہم چلا رہی ہے ، تحریک اعدم اعتماد اپوزیشن کا آخری واردات ہے جو ناکام ہوگی ، یہ لوگ 2028 تک دوبارہ نہیں اٹھ سکیں گے۔
واضح رہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادی ہے۔اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی جمع کرادی ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے جمع کرائی گئی ریکوزیشن سے متعلق رہنما پیپلز پارٹی نوید قمر کا کہنا تھا کہ 140 اراکین قومی اسمبلی کے دستخط کے ساتھ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی گئی ہے۔
پہلے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں آنی چاہیے؟
قمی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی کو تحرک عدم اعتماد پر 7 روز کے اندر کارروائی کرنی ہوگی۔قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی کو اپنے اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے، جن میں پی ٹی آئی کے 155 ارکان، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔
یاد رہے کہ حزب اختلاف کے کل ارکان کی تعداد 162 ہے، ان میں مسلم لیگ (ن) کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 ، متحدہ مجلس عمل کے 15، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔