عمران نے بھی بشریٰ بی بی کے ذریعے موروثی سیاست شروع کر دی
تمام تر دعوؤں، بیانات اور اعلانات کے برعکس بانی پی ٹی آئی عمران خان کی غیر سیاسی اہلیہ بشری بی بی عرف پنکی پیرنی نہ صرف سیاسی ہو گئیں بلکہ پارٹی رہنماؤں سے اپنے 10 منٹ کے پہلے سیاسی خطاب میں ہی 24 نومبر کو ملک میں انتشار پھیلانے کا مکمل پلان دے دیا۔ یعنی پنکی پیرنی اپنے مرید خاص سے بھی دو ہاتھ آگے نکلیں حالانکہ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے مخالفین کے سیاسی الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کرتی تھی کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
تاہم وقت بدلا عمران خان جیل پہنچے اور بعدازاں بشریٰ بی بی کو بھی سزا سنا دی گئی۔
جیل سے رہائی کے بعد وہ وزیراعلٰی ہاؤس پشاور پہنچیں تو بظاہر یہ فیصلہ مزید کسی گرفتاری سے بچنے کے لیے تھا لیکن ان کے وہاں پہنچتے ساتھ ہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کی بارہا وزیراعلٰی ہاؤس آمد نے اس امر کو ظاہر کیا کہ بشریٰ بی بی سیاسی طور پر متحرک اور اپنے پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔
بشری بی بی کی سیاسی سرگرمیوں اور 24 نومبر کی حتمی احتجاجی کال کے حوالے سے تیاریوں اور پارٹی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی خبریں سامنے آئیں تو تحریک انصاف کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی، البتہ جمعے کو پشاور میں وزیراعلٰی ہاؤس میں پی ٹی آئی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت بیرسٹر گوہر نے کی۔ اجلاس میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس سے بشریٰ بی بی نے بھی خطاب کیا۔ ذرائع کے مطابق بشری بی بی پردے کے پیچھے سے رہنماؤں سے مخاطب ہوئیں اور ان کے خطاب کے وقت شرکاء کو موبائل فون بند کرنے کی ہدایات کردی گئی تھی۔
بشریٰ بی بی نے پردے کے پیچھے سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ارکان اپنے حلقوں سے 10، 10 ہزار ورکرز ساتھ لائیں، احتجاج میں شرکت نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔بشریٰ بی بی نے ہدایت کی کہ تمام ارکان بطور ثبوت اپنے ویڈیوز بنائیں، احتجاج میں شرکت نہ کرنے والوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
سیاسی اعلانات کرنے اور پارٹی رہنماؤں کو پورا انتشار پلان دینے کے بعد بشری بی بی کا کہنا تھا کہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ سیاست میں آنا چاہتی ہوں، بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ ہونے کے ناطے ان کا پیغام پہنچایا، عمران خان کی رہائی کے لیے بھرپور احتجاج کرنا ہوگا۔
اس حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان اعلانات کے بعد غیر سیاسی ہونے کا دعوی کرنے والی بشری بی بی اور پی ٹی آئی قیادت سے کوئی پوچھے کہ اگر اب بھی بشری بی بی غیر سیاسی ہیں تو بتایا جائے پھر سیاست کسے کہتے ہیں؟
دوسری جانب عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے دعووں کے برعکس تحریک انصاف کے ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کر رہے ہیں کہ بشریٰ بی بی پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ ارکان اسمبلی سے فرداً فرداً اور وفود کی شکل میں بھی ملاقاتیں کر رہی ہیں۔
اگرچہ پاکستانی سیاست میں کسی بھی بڑے سیاستدان کہ اہل خانہ بالخصوص اہلیہ کی جانب سے سیاسی میدان میں قدم رکھنا کوئی معیوب نہیں ہے۔ اور اگر وہ پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر بھی رہی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کی خاندانی سیاست کے خلاف پالیسی اور عمران خان کے سخت موقف کے باعث تحریک انصاف بشری بی بی کے سیاسی کردار کو عوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ خاندانی سیاست کے معاملے پر تحریک انصاف اور عمران خان کا موقف واضح رہا ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے اہل خانہ بالخصوص پارٹی کے چیئرمین کے اہل خانہ کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف بشریٰ بی بی کے عملی سیاست میں آنے کو عوامی سطح پر تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف زیرِعتاب ہے اور پارٹی کے رہنما اپنے کارکنان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے۔ عمران خان نے علیمہ خان کے ذریعے 24 نومبر کی حتمی کال کا اعلان کیا تو دوسری جانب پشاور میں مقیم بشریٰ بی بی نے سیاسی رہنماؤں کو اس احتجاج کے حوالے سے سرگرم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تھوک چاٹ کے ماہر عمران خان اپنی فیملی سیاست کی پالیسی سے بھی یوٹرن لینے والے ہیں اور جلد پارٹی کی قیادت اپنی اہلیہ یا بہن کو سونپ دینگے۔