عمران اور بزدار کی آگے پیچھے چھٹی ہونے کا امکان
ایک طرف وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد داخل کروا دی ہے تو دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف اپنی ہی پارٹی میں دو دھڑے کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں گجرات کے چوہدریوں کی جانب سے وزارت اعلیٰ کی ٹرین مس کئے جانے کے بعد جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کا دھڑان لیگ کی مدد سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھال سکتا ہے یعنی اس طرح کپتان کے ساتھ ساتھ عثمان بزدار بھی فارغ ہو جائیں گے۔
بظاہر تو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں لیکن پنجاب میں اچانک پی ٹی آئی کے اندر سے ہی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے۔ عبد العلیم خان نے اچانک اپنے علیحدہ گروپ کا اعلان کیا اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی اسے جہانگیر ترین گروپ میں ضم کرنے کر دیا۔ علیم خان کا دعوٰی تھا کہ ان کا گروپ تقریباً چالیس اراکین پنجاب اسمبلی پر مشتمل ہے۔
شروع میں تو یہ تاثر ملا تھا کہ اس گروپ کو ن لیگ کی آشیرباد حاصل ہے لیکن جلد ہی معاملات کسی اور سمت چل پڑے اور پی ٹی آئی کے اندر سے نیا وزیر اعلیٰ لانے کی گیم شروع ہو گئی۔ اب اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے اندر مزید گروپ بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ترین علیم گروپ کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کا ایک اور گروپ سامنے آگیا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ بزدار کے خلاف ہیں لیکن سرمایہ داروں کے ساتھ نہیں چلیں گے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق عبد العلیم خان نے کم و بیش چالیس اراکین سے رابطہ کیا اور پھر جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر پہنچ کر ان کے گروپ میں ضم ہونے کے اعلان سے پہلے دوپہر کے کھانے پر صوبائی اراکین کا اجلاس بلایا۔ بھرپور کوشش کے باوجود اس اجلاس میں کل دس اراکین نے شرکت کی۔ اس اجلاس سے پہلے دو اہم سینیئر صوبائی وزرا نے بھی عبد العلیم خان سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی لیکن وہ باغی اراکین اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
باخبر ذرائع کے مطابق پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی غالب اکثریت کی خواہش ہے کہ انہیں اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی حمایت کے عوض آئندہ الیکشن میں ن لیگ کے ٹکٹ کی تسلی بخش یقین دہانی مل جائے لیکن ایسے اراکین بھی موجود ہیں جو اپنے سیاسی ماضی کی وجہ سے ن لیگ میں نہیں جا سکتے یا یہ کہ ان کے حلقوں میں ن لیگ کے ایسے چہرے موجود ہیں جنہیں ن لیگ کسی صورت میں بھی قربان نہیں کر سکتی۔
اسی وجہ سے ن لیگ کو اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں کہ جہانگیر ترین یا عبدالعلیم خان ن لیگ سے ٹکٹ ملنے کے وعدے پر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو اپنی اپنی چھتری کے نیچے اکٹھا کر لیں، لیکن سیاسی مبصرین کے خیال میں واردات کے اندر واردات ہو رہی ہے۔ عبدالعلیم خان کے دل میں ایک بار پھر یہ خواہش جاگ اٹھی ہے کہ اگر وہ کم بیش چالیس پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو ساتھ ملا کر جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مل جائیں تو ق لیگ ہر طرح سے وزارت اعلی کی گیم سے باہر ہو جائے گی اور ن لیگ بھی عبد العلیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے پر مجبور ہو جائے گی۔
دوسری طرف انہیں یہ بھی اطلاع تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی صلح صفائی والی ملاقات میں کپتان نے پنجاب میں نیا وزیراعلیٰ لانے پر آمادگی ظاہر کی تھی، لیکن اس بات کا عبد العلیم خان کو اندازہ نہیں کہ ہر دو فریقین نے بطور وزیر اعلیٰ عبد العلیم خان کے نام کو مسترد کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق خفیہ اجلاس میں شامل کل دس ارکان پنجاب اسمبلی میں سے صرف تین نے مستقبل میں ن لیگ کے ٹکٹ کی شرط پر عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس خفیہ اجلاس کے بعد عبد العلیم خان جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پہنچے اور چالیس اراکین اسمبلی کی حمایت کے دعوے سے میلہ لوٹنے کی کوشش کی، لیکن صوبائی وزیر آصف نکئی بھی وہاں پہنچ گئے کیونکہ یہ اطلاع آ چکی تھی کہ عمران خان عثمان بزدار کی قربانی دخنے کا سوچ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سردار آصف نکئی کی وجہ سے ن لیگ کے ٹکٹ کے وعدے پر دراصل صرف تین اراکین پنجاب اسمبلی کی حمایت رکھنے والے عبد العلیم خان کی دال نہ گل سکی اور ان کے چالیس اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے دعوے کے باوجود انہیں ترین گروپ کی طرف سے وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنانے کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو پایا۔
اسی لیے لیکن علمی خان اب جہانگیر ترین سے ملاقات کیلئے لندن روانہ ہوگئے ہین۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ن لیگ صرف جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ پر تکیہ نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنے طور پر تقریباً 15 اراکین پنجاب اسمبلی کی حمایت حاصل کر چکی ہے۔ یعنی ایک اور گروپ بھی وجود میں آ چکا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے بیس اراکین پر مشتمل آزاد گروپ بہت پہلے سے موجود ہے۔
اسی دوران یہ اطلاع بھی آ گئی کہ 8 مارچ کی رات گئے پنجاب کے تین صوبائی وزراء نے اپنی ایک الگ بیٹھک کی اور علیحدہ سے ایک اور گروپ بنانے پر اتفاق کیا۔ ایم پی اے غضنفر چھینہ کی زیر قیادت یہ گروپ سرمایہ دار گروہوں کے برعکس پرانے سیاسی گھرانوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ ن لیگ میں نہیں جانا چاہتے ۔ شاید اسی وجہ سے اس گروپ کی ترجیح یہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی صلح ہو جائے اور نیا وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی کے اندر سے ہی لایا جائے جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ فوری نئے انتخابات کی طرف جانے کی بجائے ن لیگ کو بھی ساتھ ملا کر اسی گروپ میں سے امیدوار لایا جائے۔
اس گروپ کے ایک رکن کے گھر پہلے بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ موجود رہی ہے اور انہیں ایک طاقتور کاروباری شخصیت کی جانب سے یہ تسلی دی گئی ہے کہ پچاس کروڑ سے ایک ارب روپے کے خرچ سے طے شدہ سیاسی معاملات کو بدلا جا سکتا ہے اور انہیں وزیراعلیٰ پنجاب بھی بنایا جا سکتا ہے۔
اس گروپ کا فیصلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر کسی کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے اکٹھا کر سکے اس لئے انہیں طاقتور کاروباری شخصیت کا مشورہ بھی پسند آیا ہے اور انہی بنیادوں پر یہ دوڑ دھوپ شروع ہو چکی ہے کہ بے شک مائنس عمران خان ہو جائے لیکن اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی صلح ہونی چاہیے۔
اس گروپ کے بقول ان کے امیدوار برائے وزیر اعلیٰ کے نام پر مقتدر حلقوں نے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ عثمان بزدار کا بلوچ گروپ کیا رنگ دکھاتا ہے۔دوسری جانب اہم سوال یہ ہے کہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد آئی تو حکومت اور اپوزیشن کی نمبر گیم کیا ہے اور بازی کس کے حق میں پلٹ سکتی ہے؟ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183 ارکان اسمبلی ہیں، جبکہ یہاں اس کے اتحادیوں کے ساتھ 198 ارکان ہیں، دوسری جانب اپوزیشن میں ن لیگ کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اور ایک آذاد رکن اپوزیشن کے ساتھ ہے، لہذا جہانگیر ترین اور عبد العلیم خان گروپ کا کردار پھر بھی اہم ہو گا۔
پنجاب میں عمران خان کے حکومتی اتحادیوں میں ق لیگ کے 10، چار آزاد ارکان اور راہِ حق پارٹی کا 1 رکنِ اسمبلی معاویہ اعظم طارق شامل ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس 173 ارکانِ اسمبلی ہیں جن میں ن لیگ کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اور ایک آزاد رکن جگنو محسن شامل ہے۔
کسی بھی پارٹی کو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے 186 ووٹ درکار ہیں۔ چونکہ جہانگیر ترین گروپ اور عبدالعلیم خان نے ق لیگ کے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو نیا وزیر بنانے کی مخالفت کردی ہے اس لئے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے اشتراک سے نیا سیاسی سیٹ اپ یا نیا وزیر اعلیٰ آنے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔
کبھی عرش پرکبھی فرش پرکبھی ان کے درکبھی دربدر، طنزیہ ٹویٹ
اسی طرح پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اشتراک سے بھی نیا وزیر اعلیٰ نہیں آسکتا۔ ایسے میں پنجاب کا نیا وزیر اعلیٰ صرف اور صرف پی ٹی آئی کے اکثریتی اراکین کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ کے 20 ارکان اور ن لیگ کے باہمی اشتراک سے ہی منتخب ہوگا اور بزدار حکومت کا خاتمہ بھی ان تینوں دھڑوں کے باہمی اشتراک سے ہی ممکن ہے۔