حکومت سی پیک کے 9 منصوبوں میں سے ایک بھی مکمل نہ کر پائی

تحریک انصاف حکومت کی نااہلی کی وجہ سے چینی حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ خراب ہونے کے باعث سی پیک پراجیکٹ کے تحت ملک بھر کے مختلف علاقوں میں بنائے جانے والے 9 سپیشل اکنامک زونز میں سے اب تک ایک بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ تاہم پی ٹی آئی حکومت مسلسل یہ دعویٰ کرتی آ رہی ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر بھرپور رفتار سے کام ہو رہا ہے۔

پاکستان کے لئے گیم چینجر قرار دیئے جانے والے سی پیک منصوبے کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کو رد کرنے والی تحریک انصاف حکومت نے اپنے تین سالہ دور میں زیادہ تر منصوبوں کو کاغذوں میں ہی شروع کیا ہے جبکہ عملی طور پر سی پیک منصوبے التوا کا شکار نظر آتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے تحت ملک بھر میں مجوزہ منصوبوں میں سے آدھے سے زیادہ منصوبے اب بھی ’ان پائپ لائن‘ ہیں یعنی ان پر کام کا آغاز مستقبل میں کیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ذیادہ تر زیر تعمیر منصوبے گذشتہ دو سالوں میں تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔ انکی تاخیر کی تصدیق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کے ایک حالیہ اجلاس میں بھی

ہوئی۔ کمیٹی نے 16 دسمبر کو اجلاس میں سی پیک منصوبوں پر سست پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اجلاس کو بتایا تھا کہ زیر تعمیر سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار سے چین مطمئن نہیں اور چینی سفیر نے شکایت کی ہے کہ گذشتہ تین سالوں میں ان منصوبوں پر کوئی کام نہیں ہوا، جس سے سی پیک ہراجیکٹ تباہ ہوتا دکھائی دیتا یے۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک امور خالد منصور نے بھی تسلیم کیا تھا کہ سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والی چین کی مختلف کمپنیاں حکومتی اداروں کے کام کی رفتار سے مطمئن نہیں۔

سی پیک اتھارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق چین اور پاکستان کے اشتراک سے 17 ہزار 45 میگاواٹ بجلی بنانے والے منصوبے، سڑکوں اور ریل کا انفراسٹکچر، پاکستان سے چین تک فائبر آپٹک لائن، گوادر کو سمارٹ سٹی بنانے کے ساتھ گوادر پورٹ کی تجارتی طور پر ترقی، چار مختلف شہروں میں اربن ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے ساتھ ملک بھر میں نو سپیشل اکنامک زونز بنانے کے منصوبے شامل ہیں۔

انڈیپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق توانائی کے شعبے میں 17 ہزار 45 میگاواٹ بجلی بنانے والے 21 مختلف منصوبوں میں سے تاحال پانچ ہزار 960 میگاواٹ کے 10 منصوبے مکمل ہوسکے ہیں جبکہ تین ہزار 870 میگاواٹ کے چھ منصوبے تاحال زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ دو ہزار 870 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے پانچ منصوبوں کو تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی ہے مگر تاحال ان پر کوئی کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔ مکمل ہونے والے منصوبوں کی اکثریت 2017 اور 2018 اور 2019 میں مکمل ہوئی۔ لیکن گذشتہ دو سالوں کے دوران چند ایک ہی منصوبے تکمیل کو پہنچے۔ مکمل ہوکر بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں ساہیوال میں 13 سو 20 میگاواٹ پراجیکٹ 2017 میں، قاسم پورٹ کراچی 2018 میں اور حب، بلوچستان میں کوئلے پر چلنے والا منصوبہ 2019 میں مکمل ہوا۔

بجلی کے بل میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج ایک فراڈ

اس کے علاوہ 660 میگاواٹ کا تھر کول پاور پلانٹ 2019 میں، 1000 میگاواٹ والا قائداعظم سولر پارک منصوبہ 2016 میں، سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے مختلف شہروں میں واقع منصوبے جن میں گھارو میں 50 میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنہ داؤد سولر پارک 2016 میں، جھمپیر میں 100 میگاواٹ کا یو اے پی ونڈ فارم 2017 میں اور 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ فارم 2017، گھارو کا ایک اور 100 میگاواٹ کا منصوبہ 2018 اور اس کے علاوہ سندھ کے شہر مٹیاری سے لاہور تک 900 کلومیٹر تک بچھی لائن والا 4000 میگاواٹ واحد منصوبہ ہے جو ستمبر 2021 میں مکمل ہونے بعد کام شروع کیا۔

تاہم 3 تین ہزار 870 میگاواٹ کے چھ منصوبے ایسے ہیں جو تاحال مکمل نہیں ہو سکے۔ ان میں 13 سو 20 میگاواٹ کا تھرکول بلاک ون منصوبہ شامل ہے، جس پر 66 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ 330 میگاواٹ کے تھرکول بلاک ٹو 73 فیصد، 330 کے حبکو کناری ہائیڈرو پراجیکٹ کا کام 51 فیصد، 884 خیبرپختونخوا میں سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر 70 فیصد، کیروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ،پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منصوبے کے کام کا 90 فیصد اور گوادر میں کوئلے پر چلنے والے 300 میگاواٹ بجلی گھر کا کام بھی تاحال مکمل نہ ہوسکا۔
سی پیک کے تحت ٹرانسپورٹ انفراسٹرکٹچر کے 24 منصوبوں میں سے صرف پانچ مکمل ہوئے جبکہ چھ پر کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ منصوبے ‘ان پائپ لائن’ ہیں۔ کوئٹہ کے ماس ٹرانسزٹ اور کراچی سرکلر ریلوے سمیت چھ منصوبے ’لانگ ٹرم‘ ہیں، جن پر مستقبل میں کام شروع ہو گا۔

Back to top button