عمران خان کے بعد 63 فیصد یوتھیے بھی الیکشن سے مائنس؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد جہاں عمران خان انتخابی عمل سے آؤٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں وہیں عدالتی فیصلے کے بعد عمرانڈوز کے الیکشن پراسیس کا حصہ رہنے کے امکانات بھی معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔
سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال جولائی میں ہونے والے گیلپ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عمران خان پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں ہوں گے تو پی ٹی آئی کے 63؍ فیصد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کریں گے۔ سروے میں سوال پوچھا گیا تھا کہ ’’اگر عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نہ ہوں لیکن پارٹی الیکشن میں حصہ لے تو کیا آپ ایسی پارٹی کیلئے ووٹ ڈالیں گے؟‘‘ جواب میں 63؍ فیصد ووٹرز نے نفی میں جواب دیا جبکہ 37؍ فیصد ووٹرز نے کہا کہ وہ پارٹی کو ووٹ ڈالیں گے۔
انصار عباسی کے مطابق توشہ خانہ کیس میں سزا ملنے کے بعد سے عمران خان پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں رہے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کو جو بات مزید نقصان پہنچا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف کی توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کو معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عملاً عمران خان کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس آپشن ہے کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے لیکن الیکشن شیڈول جاری ہو چکا ہے اور اب بہت محدود وقت رہ گیا ہے۔ جس میں عمران خان کو عدالت سے ریلیف ملناناممکن دکھائی دیتا ہے
دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین بیریسٹر گوہر خان کے مطابق اگر الیکشن شیڈول تبدیل نہ ہو تو سپریم کورٹ سے عمران خان کے حق میں کوئی فیصلہ حاصل کرنے کیلئے بس چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ تاہم، انہیں یقین نہیں تھا کہ ایسا ہوگا بھی کہ نہیں۔ ان کی رائے تھی کہ پی ٹی آئی اور اس کے ماہرین قانون کا خیال ہے کہ عمران خان اب بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں کیونکہ توشہ خانہ کیس میں جیل میں قید رکھنے کا عمل معطل ہونے کا مطلب سزا کا معطل ہونا بھی ہے۔ تاہم، بیشتر ماہرین قانون اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور اصرار کرتے ہیں کہ سزا کی معطلی سے جرم معطل نہیں ہوتا۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رابطہ کرکے 28؍ اگست کے عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے درخواست دائر کی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی ٹرائل کورٹ کی جانب سے 5؍ اگست کو سنائی جانے والی سزا کو معطل کیا جائے۔ رواں سال اگست میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی کیونکہ انہیں توشہ خانہ کیس میں قصور وار قرار دیا گیا تھا۔ انہیں 140؍ ملین روپے مالیت کے سرکاری تحائف فروخت کرنے کیلئے بحیثیت وزیراعظم اپنے عہدے کا غلط استعمال کرنے کا مرتکب پایا گیا۔ یہ تحائف انہیں مختلف غیر ملکی شخصیات نے غیر ملکی دوروں کے موقع پر دیے تھے۔