عمران خان اور فیض حمید طالبان کو واپس لا کر بسانے کے مجرم قرار
معروف لکھاری اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ پاکستان میں طالبان دہشت گردوں کی واپسی کے ذمہ دار سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید ہیں جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں جنگجو طالبان کو ان کے خاندانوں سمیت افغانستان سے پاکستان واپس لا کر بسانے کا سنگین جرم کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورا ملک ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی عفریت سے نبرد آزما ہے۔ وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ اس جرم کو 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں سے بھی بڑا جرم قرار دے کر اسکے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کی جانی چاہیے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ اپنی پاکستان واپسی کے بعد سے دہشت گردوں نے کراچی سے خیبر تک خون کی ندیاں بہا ڈالی ہیں اور انہیں روکنا ناممکن نظر آتا ہے۔ روزانہ فوجی جوان طالبان دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ طویل تر ہوتا جا رہا ہے۔ 9 نومبر کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے میں 30 ہم وطن جان سے گئے جن میں آدھے سے زائد فوجی جوان تھے۔ 19 نومبر کو بنوں چیک پوسٹ پر حملے میں 12 فوجی جوان شہید ہوئے۔21 نومبر کو کرم میں دہشت گرد ایک گھنٹے تک مسافر گاڑیوں پر آگ برساتے رہے۔ عورتوں اور بچوں سمیت مرنے والوں کی تعداد 48 سے متجاوز رہی۔ اکتوبر 2024 تک 951 پاکستانی شہری دہشتگردی کی نذر ہو چکے تھے۔ لیکن نومبر زیادہ ستم گر ثابت ہوا۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ پچاس برس تک ہم نے کشمیر کے نام پر قوم کو معاشی ترقی کی بجائے عسکری مورچے میں بٹھائے رکھا۔ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کا نفاذ تو صرف ایک بہانہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بساط تو دراصل 6 جنوری 2004 کو اسلام آباد میں مشرف اور واجپائی نے لپیٹ دی تھی۔ ستر کی دہائی میں ہم افغانستان میں دخیل ہوئے تھے۔ سرد جنگ کے اس اختتامی مرحلے میں ہمارا حصہ اتنا ہی تھا جتنا امریکا اور چین کے روابط کی بحالی میں یحییٰ خان کو ملا تھا۔ یحییٰ خان نامی ہرکارہ جغرافیے سے ہار گیا لیکن ضیا الحق نامی پیادہ جنیوا معاہدے تک کوس لمن الملکی بجاتا رہا۔ بعد ازاں ریاست نے مذہبی انتہا پسندی اور بے چہرہ جنگ کو داخلی سیاست اور معاشی اجارے کیلئے مفید مطلب پا کر اپنائے رکھا۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ 1998 سے ستمبر 2001 تک پاکستان کو امریکا سے کل نو ملین ڈالر امداد ملی جو نائن الیون کے بعد تین برس میں 4.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ ڈالروں کی اس بارش کے تسلسل کیلئے افغان طالبان کو زندہ رکھنا ضروری سمجھا گیا بھلے اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی طالبان کیوں نہ قدم جما لیں۔ 2011 آتے آتے نائن الیون تاریخ کا حصہ بن چکا تھا، مئی 2011 میں اسامہ کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کے بعد معاملات اس قدر بدل گئے کہ مائیک مولن امریکی کانگریس کے سامنے پاکستان پر انگلی اٹھا رہا تھا۔ امریکیوں نے افغانستان سے نکلتے ہوئے پاکستان میں بارودی سرنگ بچھا دی ہے۔ ہماری الجھن یہ ہے کہ 20برس تک افغان طالبان کی درپردہ پشت پناہی کا اعتراف نہیں کر سکتے۔ پروجیکٹ عمران اور طالبان میں زیر زمین تعلق بیان نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں اور مجرمانہ معاشی گٹھ جوڑ سے آنکھ نہیں ملا سکتے۔ خطے میں طاقتور عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں پر زبان نہیں کھول سکتے۔
ریاست کے دائمی اداروں کو شاید اب "کچھ نیا” کرنا پڑے
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی سے 2018 تک کم از کم 65000 پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے اور ملکی معیشت کو 127ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ 2016 سے 2020 تک دہشت گرد حملوں میں واضح کمی آ چلی تھی لیکن پھر اگست 2021 کے بعد خان صاحب کے دور اقتدار میں جنرل فیض حمید کے ایما پر سات ہزار سے زائد پاکستانی طالبان واپس پاکستان لائے گئے اور 100 کے قریب دہشت گرد پاکستانی جیلوں سے رہا کئے گئے۔ یوں دہشت گردی کا عفریت واپس لوٹ آیا۔ سوال یہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی فوجی جوانوں کی جانیں دے کر حاصل کیا گیا امن کس نے برباد کیا۔ کیا طالبان کی واپسی کا فیصلہ کابینہ یا پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا؟ قیاس یہی ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان اور فیض حمید نے ازخود کیا اور یہ اقدام نو مئی سے بھی بڑا جرم ہے۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ فیض حمید نے کابل ہوٹل کی چائے سے جو مٹھاس محسوس کی تھی اب وہ پاکستان کیلئے کڑواہٹ میں بدل چکی ہے۔ اب ریاست طالبان کو خوارج قرار دے چکی ہے۔ قدیم جنگجو جس تھیلے میں خشک راشن لیکر جنگ و جدل پر نکلتے تھے اسے خورجی کہا جاتا تھا۔ خوارج مسلم تاریخ کا ایک معروف باب ہے۔ طالبان دہشت گردوں کو خوارج کا نام دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی سابق ’صادق و امین‘ کو فتنہ یا بانی کہہ کر یقین کر لیا جائے کہ قوم کو نیا بیانیہ بخش دیا گیا ہے۔ صاحب، ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ خوارج کس خورجی کا اثاثہ ہیں۔