بھارت نے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے کیوں روک دیا؟

بھارتی وزارت داخلہ نے سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا ہے کہ وہاں سلامتی کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے اور سکھوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
تاہم سکھ رہنماؤں نے حکومت کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلاجواز قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بھارت نے 600 سکھوں پر مشتمل سکھوں کے گروپ کو پاکستان میں ننکانہ صاحب کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمسایہ ملک میں سلامتی کی صورت حال خراب ہونے کے علاوہ وہاں کرونا وائرس کی وبا بھی پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سکھ یاتریوں کے لئے بڑے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف دہلی سکھ گردوارہ پربندھک کمیٹی کے ممبر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی منجندر سنگھ سرسا نے حکومت کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر ضروری اور یکطرفہ قرار دیا ہے۔ منجندر سنگھ سرسا نے کہا کہ یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے اور بھارتی حکومت غلط کر رہی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انکا کہنا تھا کہ بابا گرو نانک کی صد سالہ تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور تمام سکھ یاتریوں ان میں ہر صورت شریک ہونا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حکومت سکھوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرے گی اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔” انہوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے اب بھی حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تا کہ انکا ذہن بدلا جا سکے۔
اس سے پہلے سکھوں کی نمائندہ تنظیم شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کی صدر بی بی جاگیر کور بوگیوال کے نام بھیجے گئے خط میں بھارتی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ حکومت کو موصول ہونے والی اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان جانے والے بھارتی شہریوں کی سلامتی اور تحفظ کو خطرہ لاحق ہے۔ چونکہ تقریباً چھ سو سکھوں کا یہ گروپ ایک ہفتے کے یاترا کے دوران پاکستان میں پانچ گردواروں کا درشن کرنے والا تھا چنانچہ ہمیں اس دورے کے دوران اتنی بڑی تعداد میں اپنے شہریوں کی تحفظ کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔ بھارتی سکھوں کا یہ گروپ ننکانہ صاحب کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے جمعہ 19 فروری کو پاکستان روانہ ہونے والا تھا۔
دوسری طرف پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے بابا گرو نانک کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے آنے والے 600 سکھ یاتریوں کی سلامتی اور تحفظ کے لیے مکمل انتظامات کر رکھے ہیں اور اس حوالے سے بھارتی حکومت کے خدشات بالکل بے بنیاد ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کا موقف چھوٹ پر مبنی ہے اور اس کا مقصد پاکستان کی ساکھ خراب کرنا ہے۔ اپنے پاکستان کی جانب سفر پر پابندی لگنے کے بعد سکھ رہنماوں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ کا یہ فیصلہ غیر معمولی ہے کیونکہ ماضی میں سکھوں کو پاکستان جانے سے کبھی بھی روکا نہیں گیا۔ انکا کہنا ہے کہ ممبئی پر 2008 میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے یا پلوامہ حملے کے دوران بھی جب دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی خراب ہو گئے تھے، تب بھی سکھ زائرین کو پاکستان جانے سے نہیں روکا گیا تھا۔
سیکھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات تو نومبر 2020 میں بھی کشیدہ تھے اور کرونا وائرس تب بھی موجود تھا لیکن سکھ یاتریوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ یاد ریے کہ نومبر 2020ء میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان زبردست فائرنگ ہوئی تھی، جس میں گیارہ شہریوں سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن پھر بھی سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے کی اجازت مل گئی تھی۔ لیکن اب بھارتی وزارت داخلہ نے شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کی صدر نام ایک خط میں سکھ گروپس کو یاترا کی اجازت نہ دینے کا ایک سبب یہ بتایا ہے کہ پاکستان کے طبی شعبے کا بنیادی ڈھانچہ کمزور ہے اور وہاں کووڈ 19 کی وجہ سے پانچ لاکھ افراد متاثر ہوچکے ہیں جب کہ دس ہزار سے زائد افراد اس وبا کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ لہذا اس صورت حال کے باعث ہم اپنے شہریوں کے ایک بڑے گروپ کو ایک ہفتے کے لمبے دورے پر پاکستان جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یاد رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1974 کے ایک معاہدے کے تحت سکھ یاتریوں کے چار گروپس کو ہر برس پاکستان میں تما اہم ترین گوردواروں کی زیارت کرنے کی اجازت ہے۔
خیال ریے کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک پندرہ اپریل سن 1469 کو رائے بھوئی کی تلونڈی نامی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی پنجاب میں واقع یہ قصبہ اب ننکانہ صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ اُن کا انتقال 22 ستمبر 1539 کو کرتارپور میں ہوا تھا جہاں حکومت پاکستان نے اب ایک عالیشان گوردوارہ تعمیر کر دیا ہے۔ بابا گرو نانک نے زندگی کے آخری اٹھارہ برس کرتارپور میں گزارے تھے۔