کیا کپتان حکومت کا وقت سے پہلے گھر جانا طے ہو چکا؟
معروف صحافی اور لکھاری امتیاز عالم نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم بھی آئندہ تین ماہ کو اہم قرار دے رہے ہیں اور اپوزیشن بھی کسی سیاسی دھماکے کی منتظر ہے یا پھر خود کوئی بڑا دھماکہ کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں ن لیگ سمیت کسی سیاسی جماعت کا کوئی ڈیل کرنے کا امکان نظر نہیں آتا خصوصا جبکہ حالات سیاسی پردہ گرنے کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں اور اس کی وضاحت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں واشگاف کردی ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم کا یہ کہنا بھی اہم ہے کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی یا موجودہ کی ایکسٹینشن پر ابھی میں نے کچھ نہیں سوچا کیونکہ نومبر ابھی بہت دور ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ان حالات میں لگتا ہے پیپلزپارٹی نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگا دی ہے اور فروری میں لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے جس سے حکومت کو بڑا صدمہ پہنچ سکتا ہے۔ امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم سے پہلے لانگ مارچ کا اعلان کرکے سٹریٹ ایجیٹیشن کی سیاست میں پہل کرلی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے سیاسی مستقبل کا دار و مدار اس پر ہے کہ تحریک انصاف کتنی جگہ چھوڑتی ہے اور پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی حمایت کو کتنا واپس حاصل کرتی ہے؟ انکے بقول بلاول بھٹو کے 27 فروری سے کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ کے اعلان سے کپتان حکومت کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی ششدر ہوکے رہ گئی ہے۔ اس لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت جاتی ہے یا نہیں، لیکن پیپلز پارٹی کو رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کا موقع ملے گا۔ غالباً محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی پھر سے عوامی جدوجہد کے راستے پہ واپس آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یوں اسے الیکشن سے پہلے بڑے پیمانے پہ سیاسی موبیلائزیشن کا موقع ملے گا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی حمایت کو کتنا واپس حاصل کرتی ہے۔
پاکستانی مری میں مریں یا کہیں اور، قصور انہی کا ہے
امتیاز عالم کے بقول اب جبکہ ضروری اشیاء کی مہنگائی 20 فیصد سے اوپر جا چکی ہے اور ملک بھر میں لوگ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں چلا رہے ہیں، اپوزیشن نے بھی کمریں کس لی ہیں۔۔ منی بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت تو گر جائے گی، لیکن ملک بدترین معاشی و مالیاتی بحران کی لپیٹ میں آ جائے گا جسے سنبھالنے کی اپوزیشن میں سکت ہے نہ ریاست اور اس کے ادارے اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں بحران ہے کہ بڑھتا چلا جائے گا۔ انکا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کے 27 فروری سے کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ کے اعلان کے بعد پی ڈی ایم کا 23 مارچ کا لانگ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ویسے بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پیش نظر اس کے مقدر میں ملتوی ہونا لکھا گیا تھا۔ پی ڈی ایم استعفوں اور دھرنے کی راہ سے نظام کے اندر رہ کر اپنی سیاسی بساط کو وسعت دینے کی جانب مراجعت کرگئی ہے اور اسے پختونخوا اور ضمنی انتخابات میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں اور یہی بلاول بھٹو کا مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف سے اختلاف تھا۔ اب جبکہ بلاول نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے تو بہتر ہو گا کہ پی ڈی ایم پھر سے متحد ہو جائے، تنظیمی طور پر نہیں تو عملی طور پر ایسا ہو سکتا ہے۔ جب سیاسی ہدف ایک ہے اور پی ڈی ایم کی اساسی دستاویز پہ اتفاق موجود ہے تو دوبارہ قومی اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن کی صورت میں پارلیمنٹ کے باہر بھی متحدہ محاذ بن سکتا ہے۔ یا پھر کم از کم لانگ مارچ کے لیے وقت کے تعین پہ اتفاق تو کیا جاسکتا ہے۔ صورت حال واقعی بہت بپھر گئی ہے۔ وقت اور طریقہ کار بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔
امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے اچھا وقت چنا ہے، پی ڈی ایم بھی ویسے ہی کر سکتی ہے، لیکن اپوزیشن کے دونوں دھڑوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ آئینی و قانونی اور جمہوری دائرے میں رہے۔ ذرا سا تجاوز جمہوریت اور سیاست کو ہی بہا لے جاسکتا ہے اور چوتھے انتخابات کا انعقاد اور چوتھی اسمبلیوں کا قیام جانے کتنے عرصے کے لیے ملتوی ہو جائے۔ میری ذاتی رائے تو یہ رہی ہے کہ عمران حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے اور جمہوریت کی واپسی کے بعد قائم ہونے والی تیسری پارلیمنٹ اپنا دورانیہ پورا کرے۔ لیکن تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان جس تیزی سے اپنی سیاسی ساکھ اور جڑیں اکھاڑ رہے ہیں، اس کے پیش نظر سیاسی طوفان وقت سے پہلے ہی پھوٹ سکتا ہے۔ غالباً، اپوزیشن کی توقعات سے پہلے ہی وقت قریب آ گیا ہے اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔