اقتدار کی ہوس میں اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے عمران خان
معروف اینکر پرسن اور صحافی غریدہ فاروقی نے کہا ہے کہ اپنے خلاف عدم اعتماد کی سیاسی تحریک کا مقابلہ پارلیمینٹ میں کرنے کے بجائے دین پرستی اور وطن پرستی کے نعرے لگانے کا مشورہ جس کسی نے بھی عمران خان کو دیا ہے، اس نے وزیراعظم کے ساتھ مخلصی نہیں کی کیونکہ سیاست میں مذہب کارڈ استعمال کرنے والوں کا انجام خوش آئند نہیں ٹھہرتا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ سیاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس پر تمام دنیا کا اتفاق ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ مذہب کی کوئی سیاست نہیں ہوتی، اس پر دنیا کا کوئی فرد بھی اتفاق نہیں رکھے گا۔انکا کہنا ہے کہ مشہور برطانوی مصنف ولیم ہیزلٹ کا یہ قول پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر سو فیصد صادق آتا ہے کہ ‘مذہب کا لبادہ اقتدار کی ہوس کا بہترین بھیس ہے’۔
سیاست کا اقتدار ہو یا اقتدار کی سیاست، پاکستان میں مذہب کارڈ کا استعمال کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ مذہب کارڈ کا سیاست میں استعمال جب ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی اور ہردلعزیز لیڈر اور جنرل ضیا جیسے سخت گیر آمر تک کو نہ بچا سکا لہذا آج اس کچے دھاگے سے امیدیں جوڑ کر کپتان کو بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہونے والی۔
غریدہ فاروقی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اپنے خلاف دائر کردہ عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ سیاسی انداز میں کرنا چاہیے تھا، بجائے کہ مذہبی کارڈ کو استعمال کرتے۔ عالمی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ایسی جماعتیں اور لیڈر جن کی سیاسی جدوجہد کی بنیاد مذہب نہ ہو بلکہ سماجی انقلاب کے فلسفے پر مبنی کاوش ہو، اگر وہ اپنے راستےسے ہٹ جائیں اور کسی بھی دباؤ کے نتیجے میں اپنے بنیادی ڈھانچے سے الگ نعرے کو نصب العین بنا لیں تو پھر انجام خوش آئند نہیں ٹھہرتا۔
ہمارے ہاں اس بابت بڑی مثال خود ذوالفقار علی بھٹو کی لی جا سکتی ہے جن کی تعریف آج کل خود وزیراعظم عمران خان کی زبانی سننے کو ملتی رہتی ہے۔ محسوس کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ وہ بھی بھٹو کی طرح استعماری اور سامراجی طاقتوں کو للکارنے کی وجہ سے بیرونی سازش کا شکار ہو چکے ہیں۔
غریدہ یاد دلاتی ہیں کہ روٹی کپڑا اور مکان کے بنیادی سماجی مطالبے سے ’اسلامی سوشلزم‘ کی ڈھال تک، 73 کے آئین کو مذہبی سانچے میں سمو کر، جمعے کی چُھٹی اور مذہبی طبقات کے دباؤ میں ایسے کئی دیگر اقدامات کے باوجود آخر بھٹو حکومت کے خاتمے کے لیے ’نظامِ مصطفی‘ کا ہی سہارا لیا گیا۔ آج اپوزیشن کو کم از کم اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کو مذہبی لبادے میں چھپانے کے بجائے علی الاعلان عوامی مسائل، گورننس اور حکومتی ناکامیوں پر بیانیے کو تشکیل دیا گیا ہے۔
جواباً حکومت کی جانب سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن کی کارکردگی چارج شیٹ کے مقابلے میں پرفارمنس کارڈ دکھا کر ہر قسم کی مخالف تحریک کا قلع قمع کیا جاتا لیکن جب اصلی کارڈ پر ہر طرف صفر بٹا صفر ہی دیا گیا ہو تو پھر جعلی کارڈز کا استعمال ہی واحد حل رہ جاتا ہے۔
غریدہ فاروقی کے بقول 2011 کے بعد سے تحریکِ انصاف کو جو عروج حاصل ہوا اور اس کے نتیجے میں جو طبقہ خان صاحب کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں بطور ووٹر، سپورٹر یاالیکٹیبل کے شامل ہوا، اس کا واحد مقصد ملک میں ایک سماجی تبدیلی لانا تھا۔ اس طبقے کے سامنے معاشرتی انصاف اور خوشحال پاکستان کا ایک سرسبز خواب رکھا گیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جب اقتدار موصول ہوا تو معاشرتی تبدیلی کا انقلاب یک بیک مذہبی رنگ اختیار کرتا ہوا ’ریاستِ مدینہ‘ کے سیاسی نعرے میں ڈھل گیا۔
نہ جانے کس نے اور کس طرح وزیراعظم کےذہن میں ملک کو ریاست مدینہ بنانے کی اختراع پیوست کر دی جس کا کانسیپٹ اور آئیڈیا خود وزیراعظم کی کابینہ اور پارٹی کی اکثریت حتی کہ خان کے ووٹرز، سپورٹرز تک کے لیے واضح نہیں تھا۔ نتیجہ یہی نکلا کہ ساڑھے تین سال تک اس آئیڈیا کے اردگرد ٹامک ٹوئیاں ماری جاتی رہیں حتی کہ نوبت یہاں تک آ گئی کہ اپنے بھی کہہ اٹھے کہ یہ وہ تعبیر تو نہیں جس کا خواب دیکھا تھا۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
انکا کہنا ہے کہ اس ناکام حکومتی تجربے کے بعد اب ’حکومت بچاؤ مہم‘ کے لیے ایک اور آئیڈیے کا سہارا لیا گیا ہے اور ایک سیدھے سادے سیاسی معاملےکو معرکۂ حق و باطل کے رنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد سے وزیراعظم نہی عن المنکر کا نعرہ لے کر نکلے ہیں، وہ اپوزیشن جماعتوں کو بدی اور خود کو نیکی کا پیامبر ثابت کر رہے ہیں۔ ملک پہلے ہی سیاست اور اقتدار کے لیے مذہب کا نام لینے کے خطرناک نتائج بُھگت چکا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان رُجحانات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی ہوناچاہیے۔
چودھری شجاعت کی پارٹی ، خاندان میں اختلافات کی تردید
اگر وزیراعظم خان آج اپنی سیاست کے لیے مذہب کارڈ کا استعمال کر رہے ہیں تو حالیہ ماضی کے تحریکِ لبیک یا دیگرمذہبی سیاسی جماعتوں کے احتجاج کو اخلاقی اور قانونی اعتبار سے آئندہ کس طور غلط اور بےجا قرار دے سکیں گے۔ ایسے میں غریدہ فاروقی اس امید کا اظہار کرتی ہیں کہ عمران خان مذہب کو سیاسی جنگ کا مزید ایندھن بنانے سے باز آ جائیں گے تاکہ حالات کو خطرناک نہج کی طرف جانے سے روکا جا سکے۔
Imran Khan in the guise of Islam in the lust for power ] video in Urdu