کیا سپریم کورٹ عمران خان کیلئے خود کو متنازع بنائے گی؟
سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اگر میرٹ پر عمران خان کی نااہلی ختم کرتی ہے تو ٹھیک لیکن اگر محض انہیں الیکشن میں حصہ لینے کے قابل بنانے کے لیے سزا معطل ہوتی ہے تو سپریم کورٹ پر سوالیہ نشان لگے گا۔ سپریم کورٹ کے لیے ممکن نہیں کہ عمران خان کو سارے مقدمات میں ریلیف دے پائے۔ ایسے فیصلے سے ججز خود متنازعہ بن جائیں گے مگر عمران خان کو رہا نہیں کروا پائیں گے۔
مبصرین کے مطابق جہاں ایک طرف تحریک انصاف کو سپریم کورٹ سے سائفر کیس اور لیول پلیئنگ فیلڈ بارے دائر درخواستوں میں ریلیف ملا ہے تاہم یہ سلسلہ لمبا چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کے فوری بعد ہی تحریک انصاف سے الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بلا چھین لیا ہے اور اب اس کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بلا واپس لینے کے حوالے سے سینئر تجزیہ کار رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ فیصل واوڈا ایک مہینے پہلے دو تین دفعہ کہہ چکے تھے کہ الیکشن میں بلے کا نشان نہیں ہوگا الیکشن سے پہلے واڈا کو اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور ان کی خبریں زیادہ تر ٹھیک ثابت ہوتی ہیں، ان کے دعوے کے بعد یہی فیصلہ متوقع تھا جو الیکشن کمیشن نے سنایا ہے۔ روف کلاسرا کا کہنا تھا کہ میری خبروں کے مطابق یہ سوچا جارہا تھا کہ بلے کا نشان لے کر تحریک انصاف کو گھڑی کا نشان دے دیا جائے تاکہ توشہ خانہ کیس کی وجہ سے تمام مخالفین تحریک انصاف پر بہترین تنقید کرسکیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ بلے کے نشان کا نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں کی حد تک پی ٹی آئی کو ضرور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔رؤف کلاسرانے مزید کہا کہ الیکشن متنازع ہونے کی پرواہ اداروں کو ہونی چاہیے جو نہیں ہے ۔ ان حالات میں اصل مسئلہ نوازشریف اور مسلم لیگ نون کو ہوگا کہ جو لوگ ان طریقوں سے انھیں لار ہے ہیں تو ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔اگر نون لیگ الیکشن جیت بھی جاتی ہے تو یہ فاتح نہیں ہوں گے بلکہ ناکام ہوں گے۔
دوسری جانب تجزیہ کار محمد مالک کے مطابق آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کے مسئلے کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ کیونکہ ایک دن میں صبح تحریک انصاف کو جوڈیشل ریلیف ملا اس کا جواب پلانرز نے ایک ایڈمنسٹریٹو بریف دے کر دیا۔ 22 دسمبر کو تحریک انصاف کے حوالے سے جو متضاد فیصلے آئے ہیں۔ اس سے نظر آگیا ہے جو بھی پلانر ہیں وہ اور سپریم کورٹ یہ دو مختلف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازع آپ کو اور تیز ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ تجزیہ کار محمد مالک کے مطابق دوسری جانب تحریک انصاف کا خیال یہ ہے کہ ان کی لیڈ اتنی زیادہ ہے دوسروں سے کہ چار پانچ فیصد ووٹ متاثر ہوگا۔اگر عمران خان کو سزا ہوجاتی ہے تو لوگ نکلیں گے کیونکہ مایوسی کی ہوا بھی چل پڑتی ہے۔
عارفہ نور نے کہا کہ 2018 میں بھی یقیناً بہت سے سوالات تھے الیکشن سے متعلق لیکن اب سوالات بڑھتے جارہے ہیں۔ الیکشن شیڈول کے بعد الیکشن مہم میں اضافہ ہوگا ۔ جب یہ کہا جارہا ہے کہ ہماری بات ہوگئی ہے تو کیا وزیراعظم بننے سے متعلق وہ فیصلے خود کریں گے کہ کس نے وزیراعظم بننا ہے، اگر مسلم لیگ نون پراعتماد ہوتی تو کیا آئی پی پی کے ساتھ میٹنگ ہو رہی ہوتی۔
رؤف کلاسرا نے کہا کہ عمران خان کی مقبولیت کا جو خوف مسلم لیگ نون محسوس کر رہی ہے اس وجہ سے ان کے پاس ایک ہی الیکٹیبلز کا آپشن تھاکا اور آئی پی پی میں الیکٹیبلز کافی ہیں۔ اس کے باوجود نوازشریف تھریٹ کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پیچھے جو چوہدری ہیں وہ بڑے تگڑے ہیں وہ جانتے ہیں دنیا کے دو چار ممالک نے کہہ دیا ہے کہ نوازشریف کو واپس لائیں تو وہ انھیں واپس ضرور لائیں گے۔ روف کلاسرا کے بقول ان حالات میں کا من فیکٹر عمران خان بھی ہوسکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے ڈری ہوئی ہے اور دنیا کے کچھ ممالک نہیں چاہتے کہ عمران خان واپس آئیں اس لیے وہ بہت پرامید ہے کہ جنہوں نے مینج کرانا ہے وہ آئی پی پیز کے ذریعے سب مینج کروائیں گے اور ہر صورت نون لیگ کو واپس اقتدار میں لے آئینگے۔
تاہم دوسری جانب سینئر صحافی ماجد نظامی کے مطابق ن لیگ کو پیغام دیا گیا ہے کہ پولنگ ڈے پر ڈبے ہم نہیں بھریں گے، یہ آپ کے ووٹرز کو بھرنے
ہوں گے۔ اس لیے ن لیگ الیکشن سے پہلے بھرپور تیاری کر کے نکلے گی۔