کپتان کا ساتھ چھوڑنے والے عمرانڈوز واپس کیوں آنا شروع ہو گئے؟
ملکی سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر سانحہ 9مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف چھوڑ کے جانے والوں کی واپسی کے حوالے سے خبریں گرم ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے متعدد رہنماؤں نے پارٹی میں واپسی کے لیے رابطے شروع کردئیے ہیں۔ ان میں چند رہنماؤں نے عمران خان سے جیل میں ملاقات بھی کی ہے جبکہ بعض نے مختلف ذریعوں سے پیغامات بھجوائے ہیں۔تاہم پی ٹی آئی ایسے افراد کو واپس لینے کے حوالے سے انتہائی محتاط ہے۔
ذرائع کے مطابق کوٹ لکھپت جیل میں قید سینیٹر اعجاز چوہدری اور سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے بھی خط کے ذریعے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے اپیل کی ہے کہ جو رہنما دباؤ کے باعث پارٹی چھوڑ گئے تھے لیکن اب واپس آنا چاہتے ہیں ان کو بطور کارکن پارٹی میں آنے کے لیے دروازے کھلے رکھنے چاہیئیں۔
پی ٹی آئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آزمائش کے وقت میں پارٹی چھوڑ کر جانے والے اکثر رہنما واپسی کے لیے رابطے کررہے ہیں اور مختلف ذریعوں سے پیغامات بھی بھجوارہے ہیں۔واپسی کے خواہشمند مرکزی رہنماؤں میں فواد چوہدری، اسد عمر، شیریں مزاری، علی زیدی، صداقت عباسی، علی نواز اعوان، سیف اللہ نیازی، ملیکہ بخاری سمیت متعدد رہنماؤں نے دوبارہ سیاسی میدان میں آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، تاہم فی الحال کسی بھی رہنما کو عمران خان کی جانب سے گرین سگنل نہیں دیا گیا۔ذرائع کے مطابق سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری، صداقت عباسی اور ملیکہ بخاری کے پیغامات عمران خان تک پہنچے ہیں جس پر عمران خان کی جانب سے انتظار کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔دوسری جانب سیف اللہ نیازی سابق وزیراعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات بھی کرچکے ہیں جبکہ سابق وفاقی وزیرفواد چوہدری نے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عمران خان پر چھوڑ دیا ہے۔پارٹی ذرائع کے مطابق سیف اللہ نیازی، فواد چوہدری، صداقت عباسی، ملیکہ بخاری، شیریں مزاری اور علی نواز اعوان کے پارٹی میں واپسی کے قوی امکانات ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے اس حوالے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کیس ٹو کیس معاملات کا جائزہ لے گی۔ تاہم کچھ ایسی شخصیات ہیں جن کو کسی بھی صورت میں پارٹی قبول نہیں کرے گی کیونکہ انہوں نے پارٹی کا ساتھ بہت برے وقت میں چھوڑا تھا۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان تحریک انصاف چھوڑ کے جانے والوں میں سے کچھ نے میڈیا پہ مختلف نوعیت کے انٹرویوز دیے ہیں یا پارلیمنٹ میں ایسی تقریر کی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ لوگ پاکستان تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، سابق وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی اور ماضی میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ظفر عباس نے ایسے بیانات دیے جس سے کچھ حلقوں میں یہ تاثر گیا کہ یہ پی ٹی آئی کو دوبارہ جوائن کرنا چاہتے ہیں۔تا ہم سابق وفاقی وزیر علی زیدی کے مطابق ان کا سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی انھوں نے پاکستان تحریک انصاف سے کسی طرح کا کوئی رابطہ کیا ہے۔‘‘
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے تحریک انصاف چھوٹ کر جانے والے کچھ لوگوں کو پارٹی نے رعایت دی ہے۔ ”جن لوگوں نے پارٹی کو اعتماد میں لینے کے بعد پریس کانفرنس کی تھی یا اپنی مجبوری کا تذکرہ کرنے کے بعد پارٹی کو چھوڑا تھا، پارٹی نے ان کے لیے نرم رویہ رکھا ہے۔ تاہم پارٹی اس معاملے میں احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق پارٹی نے اس حوالے سے تین کیٹیگیریز بنائی ہیں۔ ”پہلے میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے نو مئی کے فوراً بعد پارٹی کو چھوڑ دیا تھا، دوسری میں وہ ہیں جنہیں بہت تھوڑے سے وقت کے لیے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ پارٹی چھوڑ گئے تھے۔ تیسری کیٹیگری میں وہ لوگ ہیں جن پر تشدد کیا گیا تھا اور انہوں نے پارٹی کو اطلاع دینے کے بعد چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ تیسری کیٹگری کے لوگوں کو واپس لینے کے لیے پارٹی ابھی سوچ رہی ہے۔‘‘
دوسری جانب عمران خان کے قریبی ساتھی کے مطابق یہ بات درست ہے کہ لوگ پارٹی میں واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی خواتین رہنما ہیں جو عہدوں کے لیے واپس آنا چاہتی ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو مجبوری کی وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے تھے اور واپس آنا چاہتے ہیں۔ تاہم کچھ اشخاص ایسے ہیں جن کی واپسی شاید کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو۔ ” ان میں پرویز خٹک، فرخ حبیب، فیاض الحسن چوہان، عمران اسماعیل، علی زیدی، اسد عمر، سابق وزیر اعلٰی کے پی کے محمود خان، مراد راس،فواد چوہدری ، عندلیب عباس، فردوس عاشق اعوان، منزہ حسن، علی نواز اعوان، صداقت عباسی، ہمایوں اختراور سبطین خان شامل ہیں۔‘‘