نیب چئیرمین کو بچانے پر عمران خان نے یو ٹرن لے لیا

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت تنقید کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال کو پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے سے دیا گیا استثنیٰ واپس لے لیا ہے. نیب نے اپنے اس موقف سے یوٹرن لے لیا ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو پبلک اکائونٹس کمیٹی سمیت کسی بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے وزیراعظم نے استثنیٰ دے رکھا ہے۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سخت ردعمل اور تحریک استحقاق لانے کا عندیہ دینے کے بعد نیب نے بڑا یوٹرن لیتے ہوئے قومی اسمبلی کے سیکریٹری کو استثنی سے متعلق بھیجا گیا خط واپس لینے کی درخواست کی ہے۔ خیال رہے کہ اس خط میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے خصوصی استثنیٰ ملنے کے بعد نیب کے چیئرمین جاوید اقبال پبلک اکاونٹس کمیٹی کے 6 جنوری کے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے بلکہ ڈی جی نیب ان کی نمائندگی کرے گا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم خان نے نیب چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو خصوصی استثنیٰ دیا تھا کہ انہیں بطور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کسی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور آئندہ انکی جگہ کا متعلقہ ڈریکٹر جنرل پارلیمانی کمیٹیوں کے سوالات کا سامنا کرے گا۔

جسٹس جاوید اقبال کو یہ استثنیٰ دینے کی ضرورت تب پیش آئی جب قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے نیب کی جانب سے اب تک ریکور کی گئی رقم کے حوالے سے سوالات کے جواب دینے کے لئے جاوید اقبال کو طلب کیا۔ موصوف پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور پھر یہ مطالبہ کر دیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے تو تب ہی وہ کمیٹی میں پیش ہوسکتے ہیں۔ کمیٹی نے ان کے اس مطالبے کو منظور کرتے ہوئے ایک بار پھر انہیں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی، تاہم عین اس روز جب کمیٹی کے تمام اراکین اور چیئرمین اجلاس میں ان کا انتظار کر رہے تھے نیب کی جانب سے ایک خط پیش کردیا گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے جاوید اقبال کو بطور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کسی بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روکنے ہوئے خصوصی استثنیٰ دے دیا ہے لہذا اب نیب کا ڈی جی نیب کی نمائندگی کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور نیب کا گٹھ جوڑ سامنے آنے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین نے متفقہ طور پر یہ اجلاس ختم کر کے اس ضمن میں سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیا جس کے بعد وزیراعظم اور نیب کے چیئرمین نے یو ٹرن لیتے ہوئے اس خط کو غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

کیا کپتان حکومت کا وقت سے پہلے گھر جانا طے ہو چکا؟

اب نیب کی جانب سے قومی اسمبلی سیکریٹری کو لکھے نئے خط میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ خط میں نادانستہ اور حادثاتی طور پر وزیراعظم کا حوالہ دیا گیا تھا۔ چنانچہ نیب نے سیکریٹری قومی اسمبلی سے درخواست کی ہے کہ 3 جنوری 2022 کو لکھا گیا خط واپس تصور کیا جائے۔ سیکریٹری قومی اسمبلی کو لکھے گئے نئے خط میں نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے چیئرمین پارلیمنٹ کو سب سے قابل احترام، معزز اور محترم ادارہ سمجھتے ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب پہلے بھی پی اے سی اجلاس میں پیش ہوچکے ہیں اور آئندہ بھی پیش ہوتے رہیں گے، وہ اس سسلے میں اپنے کیے گئے وعدے پر قائم ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ نیب کے گزشتہ خط کا مواد پریس کی جانب سے توڑ مروڑ پیش کیا گیا۔ مراسلے کے مطابق پہلا خط دراصل سیکریٹری قومی اسمبلی کو نیب چیئرمین کی ایک قریبی فیملی ممبر کی تشویش ناک بیماری سے متعلق نجی مصروفیات سے آگاہ کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ اس صورتحال کے باعث چیئرمین نیب دستیاب نہیں تھے اور پی اے سی میں پارلیمینٹرینز کے سوالوں کے جواب دینے کے لئے پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر کے طور پر ڈائریکٹر جنرل نیب ہیڈ کوارٹرز کو چیئرمین نیب کی نمائندگی کےلیے نامزد کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ جب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چیئرمین نیب اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے اور انہوں نے وزیراعظم کی اجازت سے ایک سینئر افسر کو اجلاس میں اپنی نمائندگی کرنے کا کہا ہے تو کمیٹی کے چیئرمین نے 6 جنوری کو احتجاجاً اجلاس ختم کردیا تھا۔ وہ اراکین جو چیئرمین نیب کی درخواست پر منعقدہ پی اے سی کی ان کیمرہ بریفنگ میں شرکت کے لیے آئے تھے، وہ چیئرمین نیب کے دفتر کی جانب سے لکھا خط دیکھ کر حیران رہ گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ڈائریکٹر جنرل نیب ہیڈ کوارٹرز کو پی اے سی اجلاس میں چیئرمین نیب کی نمائندگی کے لیے نامزد کیا ہے۔ اس پر پی اے سی میں شامل اپوزیشن کے ارکان نے چیئرمین نیب کو ان کے رویے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور چیئرمین پی اے سی رانا تنویر سے جاوید اقبال کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنانے کے لیے ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق جمع کرانے کا مطالبہ کیا۔ چیئرمین نیب جو کہ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود اجلاس میں شرکت سے کترارہے تھے، بالآخر گزشتہ سال 7 دسمبر کو پہلی مرتبہ پی اے سی میں پیش ہونے پر راضی ہوگئے تھے لیکن انہوں نے اپنے ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کو اِن کیمرہ رکھنے کی درخواست کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر نیب کی ریکورئز کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں؟

Back to top button