ووٹنگ والے دن اسمبلی میں گند ڈالنے کا حکومتی منصوبہ کیا ہے؟
اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز کسی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا۔ تاہم ان کی اس یقین دہانی کے فورا بعد وزیراعظم کے مشیر بابر اعوان نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ووٹنگ کے عمل میں گند ڈالنے کا حکومتی منصوبہ کھول کر رکھ دیا۔ بار بار اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے بابر اعوان نے کہا کہ وفاداری بدلنے والے منحرف اراکین اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے قومی اسمبلی تک تو پہنچ سکتے ہیں لیکن ماضی میں دئیے گئے وکلا محاذ کیس کے عدالتی فیصلے کے مطابق فلور کراسنگ کرنے والے منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اندر یہ اختیار سپیکر کا ہوگا کہ وہ کس رکن اسمبلی کا ووٹ شمار کریں گے اور کس کا نہیں اور سپیکر کا فیصلہ ملک کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ لہٰذا ایک بات طے ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہو گا اور یوں وفاداریاں بدلنے والے نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔
تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا اور اسکے خلاف فلور کراسنگ کے الزام پر کارروائی بھی تب ہی شروع ہو سکتی ہے جب وہ وہ فلور کراس کر چکا ہو۔ لہذا اگر سپیکر قومی اسمبلی کسی ممبر کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے تو یہ عمل غیر آئینی ہوگا۔ اس سے پہلے 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل فار پاکستان نے تحریک عدم اعتماد کے باغی اراکین سمیت تمام اراکین اسمبلی کے باحفاظت اسمبلی پہنچنے کی یقین دہانی کروائی۔
عدالتِ عظمیٰ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے اپوزیشن اور حکومت تصادم روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ میری وزیراعظم سے بات ہوچکی ہے اور کسی بھی رکن اسمبلی کو عدم اعتماد والے دن پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا۔کہ میں حلفاً کہتا ہوں اجلاس کے دن کسی کو اسمبلی آتے وقت ہجوم سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے دن باہر کوئی ہجوم نہیں ہو گا، صرف تحریک عدم اعتماد کے دن نہیں بلکہ باقی اجلاس کے دنوں میں بھی ہجوم نہیں ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی دن اسمبلی کے باہر کوئی ہجوم نہیں ہوگا اور تمام اراکین بغیر کسی رکاوٹ کے اسمبلی آ جا سکیں گے۔ خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ آئین کی کوئی شق کسی منحرف رکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکتی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت کی جانب سے پارٹی سے منحرف اراکین کے ووٹ کی حیثیت جاننے کے لیے عدالتِ عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر نے صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ لارجر بینچ 24 مارچ سے اس معاملے پر سماعت شروع کرے گا۔ اس موقعے پر عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالت کے پاس پارلیمان کی کارروائی روکنے سے متعلق کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے اور بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے۔
انھوں نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی بھی فریق کے حقوق متاثر نہ ہوں۔یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر باقاعدہ کارروائی شروع ہونے سے قبل صدر عارف علوی نے پارٹی سے منحرف اراکین کے ووٹ کی حیثیت جاننے کے لیے پیر کی صبح سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا تھا۔ یہ صدارتی ریفرنس وزیراعظم عمران خان کے مشورے پر بھیجا گیا، جس کی بنیاد تحریک انصاف کے سربراہ کی طرف سے ایسے 14 اراکین کو شوکاز نوٹس ہے، جس میں ان سے پارٹی سے انحراف سے متعلق وضاحت طلب کی گئی ہے۔ صدر عارف علوی نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’ریفرنس کچھ ممبران پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر فائل کیا گیا ہے۔‘
عمران خان وزیر اعظم مودی کے چیف پولنگ ایجنٹ ہیں
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے ان اراکین نے اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس صدارتی ریفرنس کے ذریعے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت، فلور کراسنگ، ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ بیچنے جیسے عمل پر سپریم کورٹ کی رائے مانگی گئی ہے۔ تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم بزور بازو عدم اعتماد والے دن اپنے اراکین اسمبلی کو اپنے خلاف ووٹ ڈالنے سے روک بھی دیتے ہیں یا سپیکر ان کا ووٹ شمار نہیں ہونے دیتے تب بھی کپتان کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ عمران اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھے ہیں، ان کی اپنی جماعت میں ان کے خلاف بغاوت ہو چکی ہے اور ان کے چاروں اتحادی بھی اگلے چند روز میں ان کا ساتھ چھوڑنے والے ہیں۔ ایسے میں اگر ان کے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ بھی کیے جائیں تو اتحادی جماعتوں کی جانب سے ان کا ساتھ چھوڑنے کے بعد خان صاحب کی حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔