عمران خان کا سوشل میڈیا بریگیڈ ان کے گلے کی ہڈی کیسے بن گیا ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ عمران خان کا سوشل میڈیا بریگیڈ اب تحریک انصاف کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے نہ تو اگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی نگلا جا سکتا ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ عمران خان کی پارٹی بڑی مشکل میں گرفتار ہے۔ یہ مشکل اس کا سوشل میڈیا بریگیڈ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ پی ٹی آئی کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے پی ٹی آئی کے کچھ لیڈر خود کو اس سوشل میڈیا سے دور کررہے ہیں جو عسکری قیادت پر آخری حد تک جا کر تنقید کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی لیڈر شپ نے بیانیہ بنایا ہے کہ جو فوج پر تنقید کرتے ہیں یا فوجی قیادت کے بارے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلاتے ہیں ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اب عرصے بعد پی ٹی آئی کو احساس ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کی بہت سی دشمنیاں بن گئی ہیں جو عمران خان کی رہائی میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں۔ اب پی ٹی آئی کیلئے وہ صورتحال بن چکی ہے کہ آگے فوج تو پیچھے سوشل میڈیا ہے۔ لہٰذا ایسے میں اب وقت آ گیا ہے کہ کسی ایک کو گلے لگانا ہوگا۔
رؤف کلاسرا کے مطابق مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کسی ایک کو گلے لگاتی ہے تو دوسرا اس کا دشمن بن جاتا ہے اور دونوں اپنے اپنے حساب سے طاقتور دشمن ہیں۔ جس سوشل میڈیا کی وجہ سے فوج پی ٹی آئی کی دشمن بنی اس سے اگر پارٹی قیادت لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے تو اس کا اتنا شدید ردعمل ہو گا جو شاید پی ٹی آئی نہیں سنبھال پائے گی۔ لیکن اگر پارٹی قیادت خود کو اپنے سوشل میڈیا سے دور نہیں کرتی تو پھر عمران کی رہائی مشکل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پارٹی قیادت کون سا راستہ اختیار کرے۔
موجودہ سوشل میڈیا پالیسی کے ساتھ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی رہائی یا سیاست میں واپسی مشکل ہے‘ اور عمران بھی اتنی جلدی پالیسی بدلنے پر قائل نہیں ہوں گے چونکہ وہ اسے اب بھی اپنی اصل طاقت سمجھتے ہیں۔ چند دن پہلے جاوید چوہدری کے کالم میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ کیسے چند طاقتور امریکی پاکستانیوں نے پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کوششوں سے کچھ برف پگھلی تھی۔ بتایا گیا کہ پہلی بار عسکری قیادت نے عمران کے ایشو پر کچھ لچک دکھائی۔ اس معاملے کو آگے بڑھانے سے پہلے کہا گیا کہ جو کچھ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کر رہی ہے اس سوچ کو بدلیں۔ جس طرح اداروں اور ان کے سربراہوں پر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی یوٹیوبر اور انفلوئنسرز تنقید کر رہے تھے اس سے دونوں اطراف کے درمیان کوئی معنی خیز تبدیلی ہونا مشکل تھا۔
رؤف کلاسرا کے مطابق اس بات پر امریکی پاکستانی بھی راضی تھے کہ پارٹی کے سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی سب مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن اب عمران خان کو یہ بات کون سمجھا سکتا ہے۔ وہ ان معاملات میں نہ کسی کا مشورہ مانتے ہیں اور نہ ہی کوئی ذہن بدلتے ہیں۔ اگر وہ کسی کی بات مان سکتے ہیں تو وہ بشریٰ بی بی ہیں‘ لیکن وہ عمران سے بھی زیادہ غصے میں ہیں۔ ان کا غصہ پچھلے سال سب نے تب دیکھ لیا تھا جب وہ ایک جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی آئیں اور کہا کہ وہ عمران کو چھڑوا کر ہی واپس جائیں گی چاہے اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔ لیکن ہوا یہ کہ جب مظاہرین کے خلاف ایکشن شروع ہوا تو بشری بی بی علی امین گنڈاپور ورکرز کو چھوڑ کر واپس خیبر پختون خواہ فرار ہو گئے۔ بعد میں بشریٰ نے پارٹی کے بڑوں کو ایک اجلاس میں گالیاں بھی دیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے تو استعفیٰ دے دیا تھا۔
رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ جیل میں پاکستانی امریکیوں سے خان کی ملاقاتوں کے بعد پی ٹی آئی نے کچھ دن اپنے حامی یوٹیوبرز سے دوری کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی کے لیڈرز نے کہنا شروع کر دیا کہ باہر بیٹھے یوٹیوبرز جو کچھ کہتے ہیں اس سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ان یوٹیوبرز کا ردعمل آ گیا کہ سارا الزام ان پر دھرا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب واقعی ذہنی طور پر اپنی سوشل میڈیا کی طاقت کو کم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ میرا اپنا خیال ہے کہ عمران سوشل میڈیا کو ایک بہت بڑی طاقت سمجھتے ہیں اور اسے مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ اگر آپ خان صاحب کا پیٹرن سمجھیں تو انہوں نے ہر اس بندے‘ ادارے یا مخالف کے خلاف سوشل میڈیا کو استعمال کیا جو اُن کے ایجنڈے پر نہیں چلا یا نہیں چلنا چاہتا تھا۔ آپ دیکھ لیں جج ہو‘ سرکاری افسر ہو‘ صحافی‘ مخالف سیاستدان یا عسکری قیادت انہوں نے کھل کر اس فورم کو استعمال کیا اور وہ کامیاب رہے۔ میں ایسے اینکرز اور صحافیوں کو جانتا ہوں جو خان صاحب کی باتوں یا پالیسی سے نجی محفلوں میں اختلاف کرتے ہیں لیکن وہ ٹی وی شوز اور اپنے یوٹیوب چینلز پر خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔ میں نے دو تین سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جس خان کو آپ نجی محفل میں برا بھلا کہتے ہیں اسے چینل اور وی لاگز میں مہان بنا کر پیش کرتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا‘ بھائی ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ ہم اس ملک اور قوم کو سیدھی اور سچی بات بتائیں اور جواب میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے گالیاں کھائیں کیونکہ ان کے ہاں خان کے خلاف بات سننے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ خوش ہیں تو خان سے خوش رہیں۔ ہمارا کیا جاتا ہے کہ ہم عمران کو چُک کر رکھیں کہ واہ واہ خان صاحب آپ چھا گئے ہیں آپ نے کمال کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان باتوں سے خان خود اور ان کی حامی اور پارٹی خوش ہوتی ہے۔ ہمارے ٹوئٹس کو ری ٹوئٹس کرتے ہیں‘ ہمارے وی لاگز کو پروموٹ کرتے ہیں اور ہم ڈالرز کماتے ہیں۔
عمران کا شہباز گل جیسے انتہا پسندوں کو پارٹی سے نکالنے کا امکان
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ آج پی ٹی آئی کی حالت یہ ہے کہ تمام تر ہنگامے اور جلسے جلوس کرنے کے بعد بھی کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔ اب امریکہ سے پاکستانی ڈاکٹرز اور تاجروں کے وفد نے اسلام آباد پہنچ کر خان کی رہائی کے لیے کوشش کی لیکن اس کا بھی نتیجہ کچھ نہیں نکلنا کیونکہ خان اپنے سوشل میڈیا کا ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔