سپریم کورٹ سے ضمانت کے باوجود عمران جیل میں ہی رہینگے؟
سپریم کورٹ کی جانب سے سائفر کیس میں ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور کرنے کے باوجود بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی ممکن نہیں۔خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں ٹرائل کورٹ میں عمران خان کی سزا کو معطل کرتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔جبکہ آج سپریم کورٹ نے بھی سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی ہے لیکن عدالت عظمیٰ سے ضمانت منظور ہونے کے باوجود عمران خان کی جیل سے رہائی ممکن نہیں ہے کیونکہنیب نے مزید دو ریفرنسز میں عمران خان کو گرفتار کر رکھا ہے، جس میں ایک توشہ خانہ کا کیس ہے جو عمران خان کے خلاف احتساب عدالت میں دائر کیا گیا ہے جبکہ دوسرا کیس 190 ملین پاؤنڈ کا ہے، دونوں کیسز ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہیں اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ آجانے تک عمران خان کو جیل سے رہائی نہیں مل سکتی۔
واضح رہے کہ 22 دسمبر کے روز سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق چئیرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی دس، دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کی تھی۔سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سائفرکیس میں سابق چئیرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے۔نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی نوٹس کردیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔سابق چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل نےموقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کرلیے ہیں۔قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ٹرائل جلد مکمل نہ ہو۔اکتوبر 23 کو چارج لگانے کی کارروائی ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے۔ ابھی اس حکم کو ختم کردیں تو کیا ہوگا۔ التوا مانگ رہے ہیں تو پھر دونوں مقدمات میں ہوگا۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی 40 مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے۔کسی بھی سیاسی لیڈر کیخلاف ایک شہر میں 40 مقدمات درج نہیں ہوئے۔ جس انداز میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مقدمات درج کر رہے ہیں اسے رکنا چاہیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ پر سائفر کا مقدمہ چل رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ سائفر حساس دستاویز تھا جسے عوامی سطح پر شیئر کیا گیا۔ سائفر حساس کوڈڈ دستاویزتھا۔دفتر خارجہ کوڈڈ سائفر وزیر اعظم کو کیسے دے سکتا تھا۔اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔اصل سائفر تو آج بھی دفتر خارجہ میں ہی ہوگا۔ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں۔جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا سائفر کیس میں 13 دسمبر کی فردجرم چیلنج ہی نہیں کی گئی۔ سائفر وزیر اعظم کو دینے کا کیا طریقہ کار ہے۔کیس یہ ہے کہ حساس معلومات شئیر کی گئی۔یہ بات ذہن نشین کر لیں نہ ہم سائفر کیس میں ٹرائل کر رہے ہیں اور نہ ہی اپیل سن رہے ہیں۔ہمارے سامنے ضمانت کا کیس ہے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں پریڈ گراونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر بھی پڑھ کر سنائی۔قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا وزیر خارجہ خود سمجھدار تھا، سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے کہا کہ بتا نہیں سکتا اور بانی پی ٹی آئی کو پھنسا دیا، وزیر خارجہ نے بانی پی ٹی آئی کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور وہ جانیں، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانی پی ٹی آئی کوکہا کہ سائفر پڑھ دو۔
سپریم کورٹ نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا ہے، عدالت نے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کی۔
خیال رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں 5 اگست جبکہ سائفر کیس میں 15 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔13 دسمبر 2023 کو خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ کے تحت سابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں ایک بار پھر فرد جرم عائد کی تھی۔ اس سے قبل دونوں پر 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے قانونی تقاضوں کے ساتھ ازسرنو ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کے بعد اڈیالہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیکفیشن جاری ہوا تھا۔
دریں اثنا سائفر کیس میں ضمانت کے باوجود بانی چیئرمین پی ٹی آئی رہا نہیں ہوسکیں گے۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جب کہ وہ پی ٹی آئی توشہ خانہ نیب کیس میں بھی گرفتار ہیں۔عمران خان کو ان دونوں کیسز میں بھی ضمانت حاصل کرنا لازمی ہے نیب کے دونوں کیسز میں ضمانت ملنے تک وہ جیل میں ہی رہیں گے۔