عمران نے فوج سے مدد مانگ لی، اپوزیشن کا NRO دینے سے انکار

معلوم ہوا ہے کہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد واپس لیے جانے کی صورت میں قومی اسمبلی خود توڑنے کی پیشکش مسترد کردی ہے۔ باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اپنا ساتھ چھوڑنے کے بعد حزب اختلاف کی قیادت کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد واپس لے لی جائے تو وہ خود قومی اسمبلی توڑ دیں گے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیں گے۔

اس فارمولے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عمران خان پاکستانی سیاسی تاریخ کے وہ پہلے وزیر اعظم نہ بنیں جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ ہوئے۔ عمران خان کا موقف تھا کہ اس فارمولے کے تحت ان کی عزت بھی بچ جائے گی اور اپوزیشن کو بھی فیس سیونگ مل جائے گی، چونکہ حزب اختلاف کا بنیادی مقصد ان کی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔

یاد رہے کہ 30 مارچ کے روز ایم کیو ایم کا ساتھ چھوتنے کے بعد فوجی قیادت نے عمران خان سے ایک ہی روز میں دو ملاقاتیں کی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلی ملاقات میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اگر انہوں نے مبینہ دھمکی آمیز خط کو پبلک کرنے کی کوشش کی تو وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ ویسے بھی یہ خط کسی مغربی ملک کی جانب سے نہیں آیا بلکہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کی جانب سے لکھا گیا ہے لہذا اس معاملے کو خواہ مخواہ اچھال کر بیرونی دنیا کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات خراب نہ کیے جائیں۔

30 مارچ کے ہی روز ہونے والی دوسری ملاقات میں وزیر اعظم نے فوجی قیادت سے درخواست کی تھی کہ اگر وہ اپوزیشن اتحاد کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے پر آمادہ کرلیں تو وہ فوری طور پر قومی اسمبلی توڑ کر انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ فوجی قیادت نے وزیر اعظم پر واضح کیا کہ وہ کسی قسم کا سیاسی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں لہذا وہ یہ پیشکش اپنی جماعت کے ذریعے اپوزیشن تک پہنچائیں۔

اس دوران وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور دیگر وفاقی وزرا نے یہ خبر اڑانا شروع کر کے فوجی قیادت اپوزیشن اور حکومت میں مصالحت کروانے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ تاہم جب اپوزیشن قیادت تک یہ پیشکش پہنچائیں گئی تو اسے مشورے کے بعد سختی سے رد کر دیا گیا۔ حزب اختلاف کا موقف تھا کہ مصالحت برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے جبکہ وزیراعظم اپوزیشن کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں لہذا ان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے استعفی دے دیں تاکہ ان کی رہی سہی عزت بچ جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم استعفے کی تجویز پر غعر کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔

دوسری جانب آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی بینچوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کی باتیں مذاق کے مترادف ہیں کیونکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کارروائی کو روکنے کا اختیار کسی عدالت کو بھی نہیں اور سپریم کورٹ چند دن قبل وضاحت کر چکی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف دو صورتوں میں تحریک عدم اعتماد پر کاروائی رک سکتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی سیاسی مفاہمت کے بعد اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے تو اس پر کاروائی رک جائے گی۔ تاہم موجودہ تناو کے ماحول میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتنی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں کہ دونوں فریقوں کے درمیان مفاہمت ناممکن ہے۔

حکومت نے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر بند کرنے کا اعلان کردیا

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہونے کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وزیراعظ

م عمران خان اپنی اکثریت کھو دینے کے بعد خود ہی مستعفی ہو جائیں اور تحریک کا سامنا نہ کریں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس بات کا بھی امکان کم نظر آ رہا ہے کیونکہ میڈیا کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں وہ اپنے استعفی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ ماضی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے خلاف تحاریک ناکام ہو چکی ہیں۔ تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران خان وہ وزیر اعظم بننے جارہے ہیں جنہیں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں اپنے عہدے سے فارغ ہونا پڑے گا۔

Imran seeks help from army opposition refuses to give NRO | video in Urdu

Back to top button