امریکی اخبار میں عمران کے آرمی چیف پر حملے اور ٹرمپ کی خوشامد

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان اقتدار میں تھے تو بھی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی، جمہوری اور پارلیمانی، حدود وقیود اور روایات کو پائوں کی ٹھوکر میں رکھتے تھے اور اقتدار سے نکل کر بھی ان کا یہی چلن رہا ہے۔ لیکن انہیں کم از کم یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ اگر پاکستان کے ہر ادارے اور ہر فرد کیلئے کچھ باونڈریز ہیں تو کیا خود ان کیلئے بھی کوئی حدود ہیں یا نہیں؟ کیا وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، ہر حد سے آزاد ہیں؟

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ آرمی چیف کے نام بے نتیجہ خطوط نویسی سے اُکتا کر، عمران خان نےاب  معروف امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ کیلئے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ اگر ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ مضمون پڑھا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ ایک سیاسی راہنما دنیا کے سامنے اپنے وطن کا کیا نقشہ پیش کررہا ہے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، قومی سلامتی کے اداروں کو اپنی حدود وقیود میں رہنے کا درس دینے والے عمران خان، خود کیا چاہتے ہیں؟ یہ کڑوا گھونٹ اُنکے حلق میں کیوں اٹک کر رہ گیا ہے کہ اپریل 2022ء میں اُسی ایوان نے اُن پر عدمِ اعتماد کر دیا تھا جس نے اگست 2018ء میں اُنکی تاج پوشی کی تھی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ تین سال گزر جانے کے بعد بھی اُن کا اقتدار سے نکلنے کا زخم مندمل نہیں ہوا۔ ’ٹائم‘ کے مضمون میں عمران نے ’’بنیادی انسانی حقوق کی پامالی‘‘ اور ’’جمہوریت کُشی‘‘ کے الزامات لگا کر پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کے ہے۔ اس دوران انہوں نے بعض بے بنیاد ’’انکشافات‘‘ بھی کئے ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کے راہنمائوں کو حکومت سے مذاکرات کی اجازت دینے کی داستان بیان کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ جواب میں اُنہیں اڈیالہ جیل سے نکال کر ہائوس اریسٹ کی پیشکش کی گئی جو اُنہوں نے مسترد کردی۔ یہ دعوی سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ مذاکراتی عمل کے دوران کسی مرحلے پر، حکومتی کمیٹی نے، پیشکش تو کیا، اِیسا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ اِس رعایت اور خان صاحب کے ’’مردانہ وار‘‘ اِنکار کی کہانی، مذاکراتی عمل کے آغاز سے بہت پہلے بیان کی جارہی تھی۔ کوئی نہیں بتارہا کہ یہ نام نہاد پیشکش کب ہوئی؟ کس نے کی؟ کس ذریعے سے اڈیالہ جیل پہنچی؟

عرفان صدیقی کہتے کہ اگر عمران خان کو قید سے نکلنے کا گولڈن چانس ملتا تو وہ اسے کبھی بھی ضائع نہ کرتے کیونکہ اس وقت ان کی ساری سیاست جیل سے رہائی کے مشن کے گرد گھوم رہی ہے۔ امریکی اخبار میں اپنے مضمون میں خان صاحب پاک فوج کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’دنیا کو پاکستان کی صورتِ حال پر توجہ دینی چاہئے جہاں، جمہوریت سے انحراف کے باعث، بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں، ایک بار پھر دہشت گردی نے سر اُٹھا لیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاقیہ نہیں۔ اسکا سبب یہ ہے کہ ’’ملکی سلامتی کو درپیش دہشت گردی کے سنجیدہ خطرے پر توجہ دینے کے بجائے پاکستانی فوج کے وسائل، سیاسی مخالفین، جیسے پی۔ٹی۔آئی، سے انتقام لینے کی مہم میں جھونک دئیے گئے ہیں‘‘۔

 اپنی حدود و قیود سے باہر نکلتے ہوئے عمران مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات اہم ہے کہ آرمی چیف عاصم منیر، اس امر کو تسلیم کریں اور اسکا احترام کریں کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے‘‘۔ تاہم سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو مالی مشکلات کی دلدل میں دھکیلنا، اُسے دیوالیہ پن کے گڑھے میں پھینکنا اور شدید نوعیت کے سنگلاخ اقتصادی بحران میں مبتلا کرکے اپنے مفادات کو فروغ دینے کی کوشش کرنا خود عمران کی سیاسی حکمتِ عملی کا اہم جزو رہا ہے۔ اقتدار سے محروم ہوتے ہی انہوں نے شوکت ترین کے ذریعے خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو آئی۔ایم۔ایف ڈیل سبوتاژ کرنے پر اُکسایا۔ فروری 2024ء میں انہوں نے آئی۔ایم۔ایف کی ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھا کہ پاکستانی امداد، الیکش  کے آڈٹ سے مشروط کر دی جائے۔

’’ٹائم‘‘ کے تازہ مضمون میں بھی عمران نے فن کارانہ انداز میں توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں یورپی یونین، پاکستانی برآمدات کے ترجیحی محصولات کی رعایت واپس لے سکتی ہے۔ مزید کہا کہ ’’علاقائی اور عالمی سلامتی کے حوالے سے اہم مقام رکھنے والا پاکستان، ایک خطرناک نظیر بنتا جا رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اُن سب کیلئے باعثِ تشویش ہونی چاہیے جو جائز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ پاکستان کو ہر زاویے سے مطعون کرنے اور اُسکے چہرے کے ایک ایک مسام میں کالک بھرنے کے بعد، عمران خان کا قلم یکایک نئے امریکی صدر ٹرمپ پر دادوتحسین کے فراخ دلانہ ڈونگرے برساتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’میں انہیں دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک پیش کرتا ہوں۔ وائٹ ہائوس میں اُنکی شاندار واپسی، امریکی عوام کے عزم وارادہ کا ثبوت ہے۔ اب جبکہ وہ دوبارہ منصبِ صدارت پر فائز ہوئے ہیں، ہمیں توقع ہے کہ اُنکی انتظامیہ، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرے گی۔ خاص طورپر اُن ممالک کے حوالے سے جہاں اِن اصولوں کو آمرانہ حکومتوں سے خطرات درپیش ہیں۔‘‘

دریائے سندھ بچاؤ مہم نے سندھ حکومت کو مشکل میں ڈال دیا

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اپریل 2022 سے ’ماہیِٔ بے آب‘ کی کیفیت میں مبتلا عمران خان، آج کل بے مہر موسموں کی زد میں ہیں لیکن کون سا سیاست دان ہے جو اِن موسموں کے قہر کا نشانہ نہیں بنا؟ لیکن کسی اور پاکستانی سیاستدان کے کے نامۂِ اعمال میں نہ کوئی 9 مئی ہے اور نہ ہی 26 نومبر ہے، عمران اقتدار میں تھے تو بھی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی، جمہوری اور پارلیمانی، حدود وقیود کو پائوں کی ٹھوکر میں رکھا اور اقتدار سے نکلے تو بھی یہی چلن رہا۔ لیکن انہیں ملک کے خلاف زہر اگلنے سے فرصت ملے تو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان کے ہر ادارے اور ہر فرد کیلئے کچھ حدود وقیود ہیں تو کیا خود ان کیلئے بھی کوئی حدود ہیں یا نہیں؟ کیا وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، ہر حد، ہر قید، ہر قدغن سے مبرّا ہیں؟

Back to top button