عمران کا الیکشن جیت کر نیا آرمی چیف لگانے کا منصوبہ

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا موقع الیکشن 2023 کے بعد نئی حکومت کو دینے کی تجویز کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ خان صاحب اگلا الیکشن جیت کر خود نئے آرمی چیف کا انتخاب کر سکیں۔ تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران کا یہ منصوبہ دیوانے کے خواب کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ آرمی چیف لگانے کا اختیار موجودہ وزیراعظم کا ہے جسے وہ ہر صورت استعمال کریں گے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع بنانے کی جتنی بھی کوشش کر لیں انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستانی آئین ان کی خواہشات کے تابع نہیں ہو سکتا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ویسے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے میں توسیع کے خواہشمند نہیں اور موجودہ وزیر اعظم نئے آرمی چیف کا انتخاب وقت آنے پر اپنی اتحادی جماعتوں کے مشورے سے کریں گے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ پی ڈی ایم حکومت کی معیاد ختم ہونے میں ابھی تقریباً ایک برس باقی ہے لہذا نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ لٹکایا نہیں جا سکتا۔ ویسے بھی جنرل قمر باجوہ کو چھ مہینے یا ایک سال کی توسیع دے کر اس وقت جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ میں موجود سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کے ساتھ زیادتی نہیں کی جا سکتی۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر کھڑے ہونے والے تنازعے کے حوالے سے اپنی تازہ تحریر میں سینئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ فیصلے وقت کی قید میں ہوتے ہیں اور وقت طاقتوروں کی مُٹھی میں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’گل ویلے دی، پھل موسم دا‘ یعنی ہر بات اپنے وقت پر مناسب اور ہر پھل اپنے موسم میں اچھا لگتا ہے۔ اب یہ توسیع کا موسم ہے یا نہیں، نئے چیف کی تعیناتی کا وقت ہوا یا نہیں مگر جس بحث کا آغاز ہو چُکا ہے اُس نے وقت اور موسم دونوں پر اثر ضرور ڈال دیا ہے۔ عاصمہ شیرازی کے بقول قوم کا وسیع تر مفاد چند معاملوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے، جس طرح ’میرے عزیر ہم وطنو‘ کا ایک وقت معین ہے بالکل اسی طرح قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے بھی ایک دن معین ہے اور وہ دن ہر تین سال بعد آنا ہی آنا ہے۔ قوم کا وسیع تر مفاد کس چیز میں ہے اس بارے میں قوم تو شاید آگاہ نہیں تاہم بند کمروں میں موجود چند مخصوص چہرے ضرور آشنا ہیں۔ ایک بار پھر شاید قوم کا وسیع تر مفاد سامنے آ رہا ہے اور اس بار اس کا جواز عمران خان مہیا کر رہے ہیں۔تین سال قبل ’منتخب‘ وزیراعظم نے قوم کے وسیع تر مفاد میں اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کر کے آرمی چیف کو ’منتخب‘ کیا اور اُس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ جمہوری سیاسی قیادت نے بھاری اکثریت سے آرمی چیف کے عہدے سے متعلق ترمیم میں ووٹ ڈالا۔ اتنے ووٹ کبھی کسی وزیراعظم کو نہ ملے جتنے آرمی چیف سے متعلق ترمیم کو ملے اور یہ سب مُلک کے وسیع تر مفاد میں ہی ہوا۔

آپ کے الزامات اور غلط فہمیوں سے متعلق کوئی وقت نہیں

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ کیا عجیب بات ہے کہ وطن عزیز میں آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کے تقرر سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ عرض کیا تھا کہ دُنیا میں وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں اور وہ آرمی چیف لگاتے ہیں مگر یہ واحد ملک ہے جہاں چیف منتخب کرنے کے لیے وزیراعظم لگایا جاتا ہے۔

بہرکیف عمران خان نئے وزیراعظم کی ’تعیناتی‘ تک نیا آرمی چیف لگانے کے حامی نہیں ہیں۔ آرمی چیف مقرر کرنے کی یہ خواہش گذشتہ کئی برسوں سے کئی سینوں میں دھڑک رہی تھی مگر یہ دھڑکن کس کے قابو میں آئے گی اس کا انحصار نصیب پر ہی ہے۔ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں کہ سمجھ میں آسانی سے آ سکے۔ چومُکھی لڑائی کے ہر موڑ پر انجام بے خبری ہے۔ عمران نئے انتخابات مانگ رہے ہیں اور قبل از وقت انتخاب خراب معیشت کے باعث ممکن نظر نہیں آ رہے، بظاہر سیلاب نے بھی صورت حال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر فیصلہ ساز اداروں میں بحث مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد سے اب اسمبلیوں کی توسیع تک جا پہنچی ہے جیسا کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کہہ دیا ہے۔ موجودہ حالات میں عمران خان کی سیاست کو چند لمحے سانس لینے اور رُکنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اُن کی جماعت کے اندر بھی ’ردعمل‘ پیدا ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ قائداعظم اپنے اصل سربراہ سے رابطے قائم کر رہی ہے تو دوسری جانب خود عمران خان پنجاب میں اپنے اراکین سے رابطوں کا انکشاف کر چُکے ہیں۔

عاصمہ شیرازی کے بقول تحریک انصاف کے ’مستقل مزاج‘ اراکین سمجھتے ہیں کہ نئے انتخابات جیتنے کے لیے محض مقبولیت کافی نہیں، دیگر لوازمات بھی دستیاب ہونا ضروری ہیں جس کے لیے سرِدست کوئی حیلہ نظر نہیں آ رہا۔ معاملہ امریکی سازشی خط سے عدالت میں معافی تک، حقیقی آزادی سے امریکی حکام سے بند کمروں میں ملاقاتوں تک اور آرمی چیف کی تعیناتی سے مدت ملازمت میں توسیع تک آن پہنچا ہے۔ چنانچہ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں آئندہ چند دنوں میں عمران ایک بار پھر جنرل باجوہ کی توسیع کی خوبیاں بیان کرتے دکھائی دیں۔ ممکن ہے کہ میرٹ پر آرمی چیف لگانے سے بات پارلیمنٹ سے ’منتخب‘ آرمی چیف تک جا پہنچے جو اُنکے دور حکومت میں دیکھنے میں آئی۔ نئے وزیراعظم کی تعیناتی تک نئے چیف کی تقرری مؤخر کرنے کی تجویز بہرحال ایک ہی پیغام دے رہی ہے کہ فی الحال ’جانے کی باتیں جانے دو؟‘

Back to top button