عمران کی دھمکیوں سے PTI اور حکومت کے مذاکرات ختم ہونے کا امکان
اعتماد سازی کے فقدان کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ عمران خان کی جانب سے حکومت کو تحریری مطالبات دینے کی اجازت دینے کے باوجود پی ٹی آئی رہنماؤں اور حکومتی ذمہ داران کے بیانات کی وجہ سے دونوں فریقین میں اختلافات کی خلیج بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ایک جانب یوتھیے رہنماؤں کی طرف سے حکومت پر مذاکراتی عمل سبو تاژ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب حکومتی ذمہ داران کے مطابق پی ٹی آئی قیادت مذاکرات کے نام پر عمران خان کو این آر او دینے کیلئے دباو ڈالنے رہی ہے۔ تاہم حکومت پی ٹی آئی کے کسی غیر آئینی مطالبے کے سامنے سرنڈر نہیں کرے گی
مبصرین کے مطابق فریقین کی جانب سے مذاکراتی عمل بارے الزام تراشیوں اور دعووں کا سلسلہ تو جاری ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات میں اعتماد سازی کا فقدان سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،عمران خان کے گرین سگنل کے باوجود پی ٹی آئی نے تاحال مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے حکومت یا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے رابطہ نہیں کیا ۔دوسری جانب ناقدین کے مطابق مذاکرات کیلئے ترلے اور منتیں کرنے والے یوتھیے رہنماوں کی جانب سے اب سوشل میڈیا کےذریعے نیا بیانیہ اپناتے ہوئے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مذاکرات کی ضرورت حکومت کو ہے پی ٹی آئی کو نہیں۔ذرائع کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ پینترے بدلنے اور اپنے بیانات سے پھرنے کی وجہ سےپی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اب طاقتور اداروں کے مابین بھی ایک بڑا گیپ آگیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی مذاکرات کے حوالے سے جہاں ایک الگ بیانیے پر سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈہ کر رہی ہے وہیں 9 مئی کے ملزمان کی معافی کے بعد یکطرفہ چلائی جانے والی پراپیگنڈا مہم اور استقبالیہ تقریبات پر بھی اسٹیبلشمنٹ سیخ پا ہے۔ ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے حکومت پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں تحریک انصاف حکومت کو کمزور اور نااہل قرار دیتے ہوئے اب بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات آگے بڑھانے کی خواہاں ہے
تاہم اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت بتائے اگر حکومت اتنی ہی بے اختیار ہے تو اس سے مذاکرات کیلئے کمیٹی کیوں بنائی،؟ عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی قیادت پر سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے مزید کہا کہ پی ٹی آئی رہنما بتائیں کہ وہ تین چار ماہ کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ وہ اس نااہل حکومت سے مذاکرات کرنے سے پیچھے کیوں نہیں ہٹ جاتے۔عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ مذاکرات پی ٹی آئی کی خواہش پر شروع کیے گئے، پی ٹی آئی نے 5دسمبر کو کمیٹی بنادی، ایک مہینہ ہوچکا مطالبات کو حتمی شکل نہیں دے پارہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنا ہمارا کام ہے، پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر بھلے دستک دیتی رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی والے ہمارے دروازے پر کھڑے ہو کر کہیں اور کیوں جھانکتے ہیں؟ ڈیڑھ سال سے پی ٹی آئی والےکوشش کر رہے ہیں کوئی دروازہ نہیں کھلا،وہ اب امریکہ کے ذریعے کوشش کر کے بھی دیکھ لیں۔ عرفان صدیقی کے مطابق ہم تحریک انصاف سے کہتے ہیں کہ دھرنوں اور مظاہروں کے آداب اقر قرینوں پر ہی کچھ اتفاق کرلیں، ویسے ہمیں ان کے دھرنوں سے خطرہ کوئی نہیں حکومت اپنی مدت پوری کرےگی۔
عمران پاکستان مخالف طالبان کا ایجنڈا کیوں آگے بڑھا رہے ہیں ؟
واضح رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کے دو دور ہوچکے ہیں، لیکن تیسرے اجلاس کی تاریخ سامنے نہیں آسکی کیونکہ پی ٹی آئی بضد ہے کہ ان کی مذاکراتی کمیٹی کی جیل میں عمران خان سے آزادانہ ماحول میں ملاقات کرائی جائےجبکہ اب ایک بار پھر عمران خان نے حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ اگر مذاکرات کی اگلی نشست تک 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہ کی گئی تو پھر وہ مذاکرات کے عمل کو آگے نہیں بڑھائیں گے۔ عمران خان کے دھمکی آمیز رویے سے لگتا ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ تیسرے اجلاس کے بعد ہی ختم ہو جائے گا۔