سچ مرحوم کی یاد میں

تحریر : حماد غزنوی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
پاکستان میں انگریزی کے ایک موقر روزنامے کی خبر کا عکس سوشل میڈیا پر نظر سے گزرا جس میں ایک ایسی ایپ کا تذکرہ تھا جو کرپٹو کرنسی سے پیسے کمانے کی مشین ہے، دنوں میں کروڑ پتی بننے کا نادر اور آسان ترین نسخہ، چاہے آپ کو اس کاروبار کا کچھ علم ہے یا نہیں، ایپ کی مصنوعی ذہانت خود طے کرتی ہے کہ کس کرنسی میں کتنے پیسے کی سرمایہ کاری کرنا ہے، اور ایپ چند گھنٹوں میں نوٹ اُگلنا شروع کر دیتی ہے۔ اور خبر میں یہ تمام معلومات پاکستان کا ایک سابق سفیر فراہم کر رہا ہے، یعنی ایک معتبر شخص تصدیق کر رہا ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر ایک سپانسرڈ اشتہار تھا۔ تحقیق کی غرض سے اس دن کا الیکٹرونک اخبار دیکھا گیا تو یہ خبر موجود نہیں تھی، یعنی تصویر کا عکس جعلی تھا۔ سوشل میڈیا کے اشتہار میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اخبار نے یہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ریاستی بینک کے دبائو پر ہٹا دی ہے، یعنی اگر کوئی تصدیق کیلئے اخبار کے مذکورہ شمارے تک پہنچ بھی جائے تو ابہام باقی رہے۔
اتفاق ہے کہ آج ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں بہ ظاہر جیو ٹی وی چل رہا ہے، ٹی وی کے ایک معروف نیوز کاسٹر کسی حکیم صاحب کے فولادی کُشتے اور جادوئی محلول کا ذکر کر رہے ہیںجو آپ کو رُستمِ خواب گاہ بنا دے گا، پھر خبر میں ان لوگوں کے انٹرویو بھی شامل ہیں جو یہ ادویات استعمال کر کے ’’عزت دار‘‘ زندگی گزار رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے بنایا گیا یہ ویڈیو کلپ بالکل حقیقی نظر آتا ہے، اور کسی بھی عامی کو بہ آسانی دھوکا دے سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص جیو کی صحافتی اقدار اور حکیموں کے ضمن میں پیمرا کے قوانین سے آگاہی نہیں رکھتا تو اس ویڈیو میں بہ ظاہر کوئی مشکوک عنصر نہیں ہے، جیو ٹی وی کے گرافکس، ٹی وی کا معروف نیوز کاسٹر اور وہی شناساآواز و انداز۔ ہمارے ایک دوست خواتین کے کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں، پچھلے ہفتے انہوں نے اپنی عید کی کلیکشن کا فیشن شوٹ کروایا، تصویریں آئیں تو انہیں ماڈل کے چہرے کے تاثرات پسند نہیں آئے، انہوں نے مصنوعی ذہانت کی ایک سادہ سی ایپ کے ذریعے ماڈل کا چہرہ ایک حسین تر چہرے سے بدل دیا، وہ شوٹ چھپ چکا ہے، وہ کپڑے دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔ بڑے دن سے سن رہے تھے کہ ہم ’’پوسٹ ٹرتھ‘‘ دور میں داخل ہو چکے ہیں، اب یہ حقیقت ہمارے سامنے مجسم ہو چکی ہے،ہمارے چاروں طرف اس کی مثالیں بکھری ہوئی ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں ہم پر براہِ راست اثر انداز ہو رہی ہیں ۔ جھوٹ کے پائوں ہیں یا نہیں، اس کا سر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس دھند کو چِیرکر اس پار دیکھنے کا کوئی آسان طریقہ نظر نہیں آ رہا، بلکہ فی الحال تو دھند کی یلغار میں شدت آتی چلی جا رہی ہے۔
اردلی حکومت
ریاست و سیاست کے میدان میں یہ سچ جھوٹ کا کھیل اپنے پورے شباب پر ہے، کچھ طے نہیں ہو پاتا ’’دھوکا نظر کا ہے کہ نظارہ فریب ہے۔‘‘ اگر کسی کے جھوٹ کا پیراہن خوب صورت ہے تو وہ سچا قرار پاتا ہے۔جعفر ایکسپریس کے اغوا کے حوالے سے اس بحث کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹرین اغوا ہوئی تو ریاست و حکومت نے اس کی تفصیلات بتانا شروع کیں، اور دہشت گردوں نے اپنا ’’سچ‘‘ پھیلانا شروع کیا، مبینہ طور پر سیٹلائٹ فونز سے بھیجی ہوئی تصویریں سوشل میڈیا پر نظر آنا شروع ہوئیں، ریاست نے ایک قصہ سنایا، دہشت گردوں نے دوسرا، آج اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی اگر کسی ذہین شخص سے سوال کیا جائے کہ اُس روز ٹرین کے سانحے میں دراصل کیا ہوا تھا، کتنے لوگ مارے گئے تھے اور کس طرح مارے گئے تھے، تو شاید کوئی بھی تیقن سے کچھ نہ بتا سکے، جس شخص کی ہم دردی جس فریق سے ہو گی وہ اس کا ’’سچ‘‘ مان لے گا، جن صحافیوں کی حکومتی تمغوں میں دل چسپی ہے وہ حکومتی سچ کی ترویج کرتے ہیں، جن یوٹیوبرز کو ڈالروں سے لگائو ہے وہ دہشت گردوں کو سچا قرار دیتے ہیں۔ ہمارے میڈیا کو جو بتایا گیا وہ من و عن نشر کر دیا گیا، اور ہندوستان کے میڈیا کو جو ہدایات دی گئی ہوں گی وہ اس کی روشنی میں رقص کناں ہو گئے۔ مدت کے بعد ہمیں بھی حیدرآباد دکن کے ایک ہندی نیوز چینل کی جانب سے بارہ مارچ کی صبح ٹرین اغواء کے موضوع پر ایک پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی (جو بہ صد شکریہ رد کر دی گئی)۔ بیانیے کی جنگ میں سچ جھوٹ غیر متعلقہ عناصر ہوا کرتے ہیں۔ نہ کسی صحافی نے ٹرین اغواء کے وقوعے پر جانے کا قصد کیا، نہ کسی نے دعوت دی، حتیٰ کہ چابی سے چلنے والے صحافیوں کو بھی کسی ہیلی کاپٹر میں بھر کر وقوعے پر لے جانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ اگر سچ پر سنسر شپ کا پہرہ بٹھا دیا جائے تو جھوٹ کیلئے وسیع و عریض میدان کھلا رہ جاتا ہے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سنسر شپ سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے، لوگ ایسے حالات میں غیرملکی ذرائع سے خبریں حاصل کرنے لگتے ہیں، یعنی بیانیہ کی جنگ میں سنسر شپ ہتھیار ڈالنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ آج آپ کسی سے پوچھیں بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، آپ کو تعصبات سننے کو ملیں گے، جن کا حقائق سے واجبی سا تعلق ہو گا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک مقبول بلوچی راہ نما ہے یا بی ایل اے کے سیاسی دستے کی نمائندہ؟ لٹمس ٹیسٹ کے طور پر اپنے آس پاس کے لوگوں سے یہ سوال کر کے دیکھیے۔ بلا شبہ، انسانی تاریخ کے کسی بھی عہد میں سچ تک رسائی اتنی دشوار نہیں رہی جتنی کہ موجودہ دور میں ہو چکی ہے۔