جسٹس بندیال کی زیر قیادت اعلی عدلیہ کتنی آزاد ہوگی؟

آنے والے دنوں میں پاکستانی عدلیہ کتنی آزاد ہو گی اسکا اندازہ ʼʼجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیسʼʼ میں دائر کردہ نظر ثانی درخواستیں خارج کرنے والے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے تحریر کردہ 100 صفحات پر مبنی تفصیلی اختلافی فیصلے سے لگایا جا سکتا یے۔ یاد رہے کہ جسٹس بندیال اور تین دیگر ججوں نے عدالت کا 19جون 2020 کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظر ثانی درخواستیں خارج کردی تھیں۔

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت سمجھے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس سجاد علی شاہ ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے اکثریتی ججوں کے موقف کے برخلاف سرکاری موقف کے عین مطابق اختلافی فیصلہ دیا جسے نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا۔ اس لئے آنے والے دنوں میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ کتنی آزاد ہو گی۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے انکی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ اس کیس کا تعلق جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات سے ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا۔

سرینا عیسٰی نظر ثانی کیس میں فیصلہ 10 رکنی لارجر بینچ نے چھ اور چار کے تناسب سے سنایا یعنی چھ ججوں نے سرینا کے حق میں جبکہ چار نے خلاف فیصلہ دیا۔ یاد رہے کہ ماضی میں جسٹس فائز عیسی کیس کی پہلی دو اپیلوں کے فیصلوں میں بھی جسٹس عمر عطا بندیال نے اکثریتی ججوں سے اختلاف کیا تھا۔ سرینا کیس میں بھی 100صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلے میں جسٹس عمر عطا بندیال نے لکھا یے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست سمیت دیگر تمام نظر ثانی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں، کیونکہ ججز بھی دیگر افراد اور پبلک آفس ہولڈرز کی طرح غلطیوں پر قابل احتساب ہیں۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں تیزی کیوں؟

فیصلے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز کے خلاف شکایت آئی، جج کے خلاف سامنے آنے والے مواد پر وضاحت دینا عدلیہ کی ساکھ بچانے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اختلافی اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس معاملات پر آرٹیکل 184 (3) کے اطلاق نہ ہونےکی دلیل میں وزن نہیں، جسٹس فائز عیسیٰ اپنے اور اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیل دینے کے پابند ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف سرکاری موقف درست ثابت کرنے کے لیے عمر عطا بندیال نے چند قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے قرآن پاک کی سورة النساء کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اللہ کے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی کوئی پس وپیش نہیں کرسکتے ہیں، ایک جج بھی دیگر افراد اور سرکاری عہدیداروں کی طرح اپنی غلطی اور کوتاہی کیلئے قابل احتساب ہوتا ہے۔ بندیال نے لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہیں.

بھارت اور کینیڈا میں بھی ججوں کو تجارت یا کاروباری معاملات میں ملوث ہونے پر انکوائری کے بعد مستعفی ہونا پڑا ہے ،اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ ایک جج اور سرکاری ملازم کے احتساب کے طریقہ کار میں بس اتنا ہی فرق ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کے خلاف شکایت پر انکوائری کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے۔

یاد رہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف وزیراعظم عمران خان کی سفارش پر عارف علوی کی جانب سے دائر صدارتی ریفرنس کا آغاز بھی قرآن پاک کی سورة النساء سے کیا گیا ہے کیونکہ یہ آیت انصاف کیلئے سچائی تلاش کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔

عمومی تاثر کے برعکس جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ فائز عیسی کیس میں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہو گئی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ عدالت نے انصاف کی فراہمی کے عمل میں اپنے ایک ساتھی کیلئے انصاف کا مختلف معیار اپنایا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک جج انصاف کی فراہمی کی بناء پر معاشرے میں بلند ترین مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے طبقہ اشرافیہ کا حصہ ہوتا ہے۔

اس کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے دوران سچائی کا سامنا نہ کرنا اللہ کے احکامات کے بالکل مخالف ہے جس نے معاشرہ میں امتیازی سلوک سے منع کررکھا ہے۔ یوں بندیال اور انکے 3 دیگر ساتھیوں نے نظرثانی کیلئے دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا 19 جون 2020 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ تاہم دس رکنی بینچ کے چھ دیگر ججوں نے مسز سرینا عیسی کی نظرثانی درخواست قبول کر لیں اور یوں جسٹس بندیال اور ان کے دیگر تین ساتھی اقلیت میں بدل گے۔

Back to top button