10 روپے بجلی سستی کرنے کی بجائے حکومت نے 2 روپے اضافہ کر دیا
وفاقی حکومت کی جانب سے 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا علان کرتے ہوئے اگلے چند مہینوں میں بجلی 10 سے 15 روپے یونٹ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم معاشی ماہرین کے مطابق حکومت عوام مو مسلسل ماموں بنا رہی ہے وفاقی حکومت کے حالیہ اقدامات سے 10 روپے فی یونٹ بجلی سستی ہونا تو کجا بجلی کی قیمت میں 72 پیسے فی یونٹ کمی آئے گی جبکہ عوام کو اسی ماہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دو روپے فی یونٹ اضافی ادا کرنا ہونگے
ماہرین کے مطابق’اس وقت ملک میں تقریبا 101آئی پی پیز کام کر رہی ہیں۔ پانچ کے ساتھ معاہدے ختم کرنے سے باقی 96 آئی پی پیز باقی رہ جائیں گی۔’جن پانچ کمپنیوں سے معاہدے ختم کیے گئے ہیں ان کے معاہدوں کی مدت دو تین سال میں ختم ہو رہی تھی۔ اگر حکومت معاہدے ختم نہ بھی کرتی تو وہ خود بخود ختم ہو جاتے۔’ان معاہدوں کے ختم ہونے سے تقریبا 70 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے اور فی یونٹ تقریبا 70 پیسے کمی آسکتی ہے۔ اتنی کمی سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر واپڈا 10 روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے پی ایل ایل یعنی پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کے 3.23 روپے فی یونٹ چارجز ختم کرے۔ کیونکہ ’واپڈا آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے کے لیے بینکوں سے سود پر قرض لیتا ہے۔ اس کی ادائیگی کے لیے 3.23 روپے فی یونٹ عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق: ’اس کے علاوہ اگر سی پیک معاہدوں کی تو پروفائلنگ کی جائے تو تقریبا تین روپے فی یونٹ تک بچت ہو سکتی ہے۔ پانچ آئی پی پیز معاہدے ختم کرنے سے 70 پیسے فی یونٹ بجلی سستی ہو سکتی ہے۔’یہ ٹوٹل تقریبا سات روپے فی یونٹ بنتا ہے۔ سردیوں میں بجلی کا استعمال تقریبا 13 ہزار میگاواٹ ہے۔ اگر اسے معمولی سا بڑھا دیا جائے تو تین سے چار روپے فی یونٹ بچت ہو سکتی ہے- اس طرح تقریبا 10 روپے فی یونٹ بجلی بآسانی سستی کی جا سکتی ہے۔‘
دوسری جانب سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے آئی پی پیز سے پانچ معاہدے ختم ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ یہ تو 1992, 1994 کے سستے معاہدے تھے۔ اصل ادائیگیاں تو 2015 کے معاہدوں کی ہیں جن میں چائنیز آئی پی پیز سر فہرست ہیں۔’اگر چائنیز کو منا لیا گیا تو بجلی قیمت کم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ فی الحال چائنیز کو منانا مشکل ہے۔عام آدمی کو سستی بجلی دینے کے لیے سولر انرجی کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔‘ان کے مطابق: ’سولر پر ایک یونٹ 12سے 13روپے کا پڑتا ہے اور واپڈا کا یونٹ اسی روپے تک جاتا ہے۔اگر حکومت سولر میں رکاوٹ نہ ڈالے تو چند سالوں میں عوام واپڈا سے سولر پر منتقل ہو جائیں گے۔ واپڈا اسی طرح بے معنی ہو جائے گا اس ادارے کی ڈاؤن سائزنگ سے بھی حکومت خطیر رقم بچا سکتی ہے۔ تاہم فیڈریشن پاکستان چمبر آف کامرس کے نائب صدر ذکی اعجازکے مطابق ’انڈسٹری کے لیے اکتوبر کے آخر میں بجلی مزید سستی ہونے کے امکانات ہیں۔ اس سے اشیا کی قیمتیں کم ہوں گی اورعام عوام کو بھی ریکیف مل سکتا ہے۔‘
ماہرین کا مزید کہنا ہے بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو چینی آئی پی پیز کو قیمتوں میں کمی کے لیے رضامند کرنے کے ساتھ بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہو گا۔کراچی میں مقیم ماہر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھی شروعات تو ہے۔ لیکن اس کا اثر عام صارفین کے لیے بہت کم ہو گا۔اُن کے بقول اس سے عام صارف کو صرف 77 پیسے فی یونٹ ہی کا فائدہ مل سکے گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اس ماہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں صارفین کو دو روپے فی یونٹ سے زیادہ ادا کرنا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کہ گھریلو صارفین اور تجارتی صارفین کو ان پرانی آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے وقت سے پہلے ختم کرنے سے کوئی زیادہ فائدہ تو نہیں پہنچے گا۔ مگر اس کے باوجود یہ اچھا آغاز ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔اُن کے بقول اس میں تاخیر سے پاکستانی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ لیکن اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ملکی معیشت کو چلانے کے لیے توانائی کی قیمتیں کم کرنا کس قدر ضروری ہو چکا ہے۔