یونان کشتی حادثے سے متعلق ہوش ربا انکشافات
یونان کے قریب کھلے سمندر میں کشتی حادثے کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات آئے ہیں۔
انسانی اسمگلرز نے کھلے سمندر میں کوسٹ گارڈز و سرویلینس سسٹم سے بچنے کیلئےبڑےٹرالر کےبجائے عام چھوٹی کشتیوں کا استعمال شروع کر دیا۔
سمندر میں کشتی الٹنے کےحادثے میں اب تک چار پاکستانی باشندوں کے جاں بحق ہونےاور47 کو ریسکیو کرنےکےحوالے سے تصدیق کی گئی ہے۔
مخلتف ذرائع رابطے کرکے معلومات جمع کی ہیں جن میں ہوش ربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔
واضح رہےکہ پاکستان سےلیبیاجانے کیلئےبراہ راست پروازیں نہیں جاتیں تاہم یورپ جانے کےخواہش مند افراد ایئر روٹس کےذریعےباقاعدہ ویزوں پردبئی و دیگرممالک جانےکےبعد وہاں سے انسانی اسمگلروں کےہاتھوں شکارہوکر مختلف ممالک سےہوکر زمینی راستوں کےذریعے لیبیا پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے سمندر کےذریعے یورپ ممالک کی سرحدیں عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ انسانی اسمگلرز نے طریقہ بدل دیاہےاور اب کوسٹ گارڈ،ریڈارز و سینسرز سے بچنے کیلئےبڑے ٹرالر یا کشتیوں کےبجائےچھوٹی کشتیوں کا استعمال کرنے لگے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق11 سے12 دسمبر کی شب لیبیا سے تارکین وطن کو تین مختلف کشتیوں میں سوار کروایا گیا، کشتیاں تقریباً ڈھائی دن تک سمندر میں رہیں جن میں سے دو کشتیاں محفوظ رہیں جبکہ ایک کو حادثہ پیش آیا۔حالیہ حادثہ بھی ماضی کی طرح ملاحوں واسمگلرزکےلالچ کےباعث پیش آیا کیونکہ متاثرہ کشتی پر بھی گنجائش سےزیادہ افراد سوار تھےاور یہی وجہ حادثے کا سبب بنی۔
کشتی میں84 سے زائد افراد سوار تھےجن میں سے اکثریت پاکستانیوں کی تھی جبکہ چند سوار افراد میں مصری اور سوڈانی بھی تھے۔دو ملاحوں میں ایک سوڈانی ملاح زندہ بچاجس کو وہاں کی پولیس نےگرفتار کر لیا ہےجبکہ47 پاکستانیوں کو ریسکیو کرکے شناخت کرلی گئی،چارپاکستانی جاں بحق ہوئےجس میں ایک کا تعلق سیالکوٹ سےہے۔
ذرائع کے مطابق30 پاکستانی لاپتابتائے جاتے ہیں جن کےمتعلق انہیں بچ جانے والے پاکستانی باشندوں نے بتایا ہے اور انکی تلاش جاری ہے۔
انکشاف یہ بھی ہواہےکہ کشتی میں سوارافراد کی عمریں15 سے40 سال تھیں، اکثریت کی عمر25 سے30 سال تھی جبکہ15 سے16 سال کے3بچے بھی شامل تھے۔ زیادہ ترافرادکی تعداد پنجاب کےعلاقوں سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات وغیرہ سے ہے۔
پاکستان میں ایف آئی اےکی سردمہری دیکھنے میں آرہی ہے، ابھی تک ایف آئی اےکی سطح پرکسی قسم کی تحقیقات شروع نہیں کی جا سکیں۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پرایف آئی اےحکام کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ یا وزارت خارجہ کی سطح پر چیک کریں،ایف آئی اےمیں ابھی تک اس معاملے پر کچھ بھی شروع نہیں کیا گیا۔
سینئرافسر کا کہنا تھا کہ تارکین وطن بہترمستقبل وروزگارکیلئےنت نئے طریقوں کے استعمال سےیورپ جانانہیں چھوڑتے،امیگریشن چیک پوائنٹس پرمسافروں کی پروفائلنگ کی اشدضرورت ہے۔