کیا عمران خان کی تحریک انصاف واقعی تقسیم ہونے جارہی ہے ؟

اہم اموراور پالیسی بیان میں پی ٹی آئی رہنماؤں کےمؤقف میں تضاد، مقبولیت میں سبقت کی خواہش اور سیاسی رقابت نے تحریک انصاف کیلئے تنظیمی سطح پر مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہےجبکہ پی ٹی آئی کے باغی رہنما شیر افضل مروت نے آئندہ ایک ماہ میں پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک بننےکا دعویٰ کرکے پی ٹی آءی کیلئےخطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

خیال رہے کہ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اب کوئی بھی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، آئندہ ماہ قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک بن جائیں گے، اس کی قیادت کرنے والے ارکان میں ایسے بااثر چہرے بھی شامل ہونگے جس سے اس تنظیم کی پوری قیادت دم بخود ہو کر رہ جائےگی۔ پی ٹی آئی کو مزید ندامت سے بچنے کیلئے بلاول بھٹو کی مصالحتی پیشکش قبول کرکے فیس سیونگ کر لینی چاہیے۔ مروت نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی آمین گنڈاپور کو بھی آئندہ ماہ فارغ کر دیا جائے گا ، مجھے نہ نکالا گیا ہوتا تو اب تک گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ کا کام تمام ہو چکا ہوتا۔شیر افضل خان مروت نےانکشاف کیاکہ تحریک انصاف کی صفوں میں اس قدر بڑی دراڑیں اور تقسیم رونما ہوچکی ہے کہ اس کا فی الوقت اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے جس کے وجہ سے جہاں جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ متاثر ہوا وہیں سیاسی قیادت میں تبدیلی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے سوال سمیت کئی عوامل کی وجہ سے پارٹی اختلافات کا شکار ہو چکی ہے۔اس عرصے میں جہاں کئی سیاسی رہنما تحریک انصاف کو خیرباد کہہ گئے وہیں کئی اہم رہنما نو مئی کے واقعے کے بعد گرفتاریوں اور مقدمات سے بچنے کے لیے روپوش ہوئے اور ایک نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی۔ نئی پارٹی قیادت سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف میں اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر مختلف رہنماؤں کے اہم ایشوز پرموقف میں تضادات اورایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کی نفی، اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پارٹی میں سب اچھا نہیں ہے اور پی ٹی آئی کا جلد یا بدیر ٹکڑے ہونا یقینی ہے۔

23 مارچ کو قومی اعزازات کی لوٹ سیل کیسے لگائی جاتی ہے؟

 

تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمرانڈو رہنماؤں کے آپسی اختلافات کی نوعیت کیا ہے اور ان کی وجہ سے تحریک انصاف کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ پی ٹی آئی کے اندر اختلافی آوازیں کب اور کیسے بلند ہونا شروع ہوئیں اور آیا جیل میں قید عمران خان کے لیے ان اختلافات کو دور کرنا ممکن ہو گا یا نہیں؟

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت گذشتہ کئی مہینوں سے واضح تقسیم کا شکار نظر آ رہی ہے۔

انتخابی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق تحریک انصاف کا پہلے بھی کوئی مضبوط تنظیمی سٹرکچر نہیں تھا۔ ’یہ جماعت پہلے دن سے لے کر آج تک عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔‘ان کے مطابق اس سے پہلے ہمارے پاس ایم کیو ایم کی مثال تھی جس جماعت کے پاس ایک مقبول شخصیت کے علاوہ ایک مضبوط تنظیمی سٹرکچر بھی موجود تھا۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کا معاملہ مختلف ہے۔ ’جب عمران خان پر مشکل پڑی تو پھر پارٹی کا تنظیمی سٹرکچر نظر نہیں آیا اور بہت سارے لوگ پارٹی چھوڑ گئے۔‘

تاہم سینئر تجزیہ کار عارفہ نورکے مطابق ’تحریک انصاف جب برسراقتدار تھی تو بھی اس جماعت کے لیے ڈسپلن ایک مسئلہ رہا اور اس طرح کے معاملات تحریک انصاف کے اندر بہت نمایاں تھے اور ایسے اختلافات پر حکومت میں ہوتے ہوئے بھی کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔‘ان کی رائے میں ابھی جو پارٹی میں اختلافات اور گروپنگ نظر آ رہی ہے ’یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ اب پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔‘عارفہ نور کے مطابق ’ابھی عمران خان اور شاہ محمود قریشی جیل میں ہیں۔ بہت سے لوگ پہلے ہی پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں اور کسی نہ کسی صورت ابھی بھی کریک ڈاؤن ہو رہے ہیں تو ایسے میں پارٹی میں اختلافات ایک فطری امر ہے۔

دوسری جانب پارٹی میں ہرگزرتے دن کے ساتھ بڑھتے اختلافات کے بعد عمران خان نے خود پارٹی میں گروپنگ ختم کروانے میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان جیل سے پارٹی کے اختلافات دور کر سکیں گے؟

مبصرین کے مطابق اگر جیل سے عمران خان اپنی پارٹی میں پیدا ہونے والے اختلافات دور کرنا چاہیں تو اس کے لیے پہلی شرط تو یہی ہے کہ وہ جب جس سے ملنا چاہیں وہ ملاقات ہو جائے۔ مگر بظاہر اس کے امکانات بھی زیادہ نہیں ہیں۔تاہم عمران خان پارٹی کے اندر اختلافات دور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

دوسری جانب ماجد نظامی کے خیال میں عمران خان کے لیے پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو دور کرانا آسان نہیں ہوگا۔’ان کی مجبوری ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں تا کہ پارٹی میں دراڑ کا تاثر نہ رہے۔‘تاہم ان کے مطابق ’عمران خان کو یہ اختلافات دور کرنے کی ایسی بڑی فکر بھی نہیں ہے کیونکہ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مقبولیت صرف عمران خان کی ہی ہے۔

Back to top button