کیا صدر زرداری کی جانب سے عمران کی سزا معاف کرنے کا امکان ہے؟
پی ٹی آئی کی جانب سے فیصلہ چیلنج کرنے سے پہلے ہی وفاقی حکومت نے 190 ملین پاؤنڈز کیس میں عمران خان کو رحم کی اپیل پر سزا معافی کی پیشکش کر دی ہے۔ 190 ملین پاؤنڈز کیس میں عمران خان کو 14 سال جبکہ بشری بی بی کو 7 سال قید با مشقت کی سزائیں سنائے جانے کے بعد جہاں سیاسی حلقوں میں اس فیصلے کے اثرات بارے بحث اپنے عروج پر ہے وہیں قانونی حلقوں میں اس عدالتی فیصلے بارے تقسیم پائی جاتی ہے جہاں بعض قانونی ماہرین القادر ٹرسٹ بارے عدالتی فیصلے کو آئین اور قانون کی فتح وہیں بعض ماہرین اس فیصلے کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے سیاسی اثرات اور اس کے قانونی پہلوؤں کے ساتھ یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا 190 ملین پاؤنڈز کیس میں اب بھی عمران خان سزا سے بچ سکتے ہیں؟ عمران خان کے پاس سزا کی معافی کے کون کون سے آپشنز موجود ہیں؟ کیا وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے رحم کی اپیل پر سزا معافی کی پیشکش آئینی طور پر ممکن ہے؟
خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے عمران خان کو دی گئی سزا کے فیصلے کو مسترد کرتےہوئے اس اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سزا کے خلاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے علاوہ سزا کی معطلی کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔‘ ماہرین کے مطابق اگر مجرمان کی طرف سے دو درخواستیں دائر کی جاتی ہیں تو ’پہلے سزا معطلی کی درخواست سنی جائے گی اور اگر عدالت نے یہ سمجھا کہ یہ سزا جو ان کو دی گئی ہے اس میں کوئی قانونی جھول یا سقم ہے تو عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ آنے تک ذیلی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کو معطل کر دے۔‘
تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتی فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر کرنے سے قبل ہی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کی سزا کی معافی کی پیشکش کر دی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے لیکن ان کی اپیلوں کو فرسٹ ان، فرسٹ آؤٹ کی بنیاد پر سنا جانا چاہیئے۔انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس سزا کو ختم کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکے تاہم اگر عمران خان، صدر پاکستان آصف زرداری سے رحم کی اپیل کریں تو وہ اس پر فیصلہ کر سکتے ہیں۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا میگا کرپشن اسکینڈل ہے، یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، انصاف کا بول بالا ہوا ہے، تاہم اگر عمران خان رحم کی اپیل کریں تو انھیں سزا سے معافی دلواسکتا ہوں۔
تاہم ماہر قانون اور سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کا کہنا تھا کہ فیصلہ بہت جاندار ہے اس کے دو تین اہم پہلو ہیں پہلی بات نیب کی انویسٹی گیشن اس کیس میں درست نظر آتی ہے ۔ دوسرا پراسیکیوشن میں اس میں بہترتھی اور بہتری کی وجہ یہ تھی کہ اس میں نیب نے اپنے پراسیکیوٹر پر اعتماد کے بجائے امجد پرویز کو آگے کیا تھا اور تیسری بات یہ کہ جتنے بھی دفاع کے نکات تھے ان کا جواب جج صاحب نے دیا ہے ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اہم نکات کو Skip کیا ہو ۔ اسی وجہ سے میری نظر میں یہ بہترین فیصلہ ہے جس میں نظر آتا ہے کہ تمام شواہد کو پوری فائل کو جانچ کر فیصلہ دیا گیا ہے ۔ اس سے لگتا نہیں کہ اس مقدمے میں بانی پی ٹی آئی کو اعلی عدلیہ سے کوئی ریلیف مل پائے گا۔
ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے پہلے عمران کو سزا کیوں سنا دی گئی؟
دوسری جانب تجزیہ۔کاروں کے مطابق عدالتی فیصلے میں بانی پی ٹی آئی پر بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے کے بعد عمران خان کی سیاسی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس عدالتی فیصلے سے جہاں حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین جاری مزاکراتی عمل متاثر ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں وہیں دوسری جانب عمران خان کو لمبی سزا سنائے جانے کے بعد پی ٹی آئی کےاندرونی اختلافات دوبارہ سر اٹھا سکتے ہیں، اور مزاحمت کی حمایت کرنے والے پی ٹی آئی کے دھڑے، صلح پسندی کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کرنے والوں پر غالب آ سکتے ہیں۔