کیا بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اب آپریشن سے ہی ممکن ہے؟

بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شرپسندانہ کارروائیوں کے بعد صوبے میں بڑے فوجی آپریشن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ مبصرین کے مطابق بلوچ عوام کی جانب سے وفاق کی ایک اکائی کے طور پر اپنا حق مانگنا جائز عمل ہے، لیکن کچھ عناصر اگر وفاق کے وجود پر ہی حملہ آور ہو جاتے ہیں تو یہ پھر حقوق کا معاملہ نہیں رہتا۔ یہ ریاست کے خلاف جنگ قرار دی جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں بلوچستان بین الاقوامی پراکسی وار کا میدان بن چکا ہے۔ پاکستان نے سرخرو ہونا ہے یا گھائل ہونا ہے، مقتدر قوتوں کو اب فوری فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مزید تاخیر کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان میں ایک گوریلا وار جاری ہے۔ ایسی لڑائی میں نفسیاتی اور ابلاغی بیانیہ بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر گوریلا وار جاری نہیں رہ سکتی۔تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان نے اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو دہشتگردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی بارے مخمصہ ختم کرنا ہو گا کیونکہ اب اگر مگر، گو مگو اور چونکہ چنانچہ کا وقت ختم ہو چکا۔ ریاست کو پوری یکسوئی کے ساتھ بروئے کار آتے ہوئے اس دہشت گردی کو اس کے سہولت کار بیانیے سمیت ادھیڑنا ہو گا۔
تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں جاری شورش کا بیانیہ کیا ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنے وسائل کے باوجود غریب رہ گئے اور وفاق نے ہمیں ہمارا حق نہیں دیا اور ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ اب ہم نے اپنا حق لینا ہے۔ مبصرین کے مطابق بلوچستان میں معاشی محرومیاں ایک حقیقت ہیں اور یہاں طرزِ حکومت کے مسائل بھی ہیں، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ محرومیاں اس شورش اور دہشت گردی کی وجہ نہیں، یہ اس کے لیے ایک بہانہ ہیں۔ ناقدین کے مطابق بلوچستان میں محرومیوں کا بیانیہ تو بہت بعد میں استوار ہوا، بلوچستان میں ریاست کے خلاف بغاوت تو قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی شروع ہو گئی تھی، جو کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔
مبصرین کے مطابق یہی معاملہ لاپتہ افراد یعنی مسنگ پرسنز کا بھی ہے۔ اگرچہ یہ ایک تکلیف دہ معاملہ ہے اور اسے حل ہونا چاہیے تاہم اس معاملے کو بھی کسی دہشت گردی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ لاپتہ افراد کی وجہ سے شورش اور دہشت گردی پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ شورش اور دہشت گردی ہے، جس نے لاپتہ افراد کے بحران کو جنم دیا۔مبصرین کے مطابق ناراض بلوچیوں کا وفاق کی ایک اکائی کے طور پر اپنا حق مانگنا جائز عمل ہے، لیکن کچھ عناصر ذاری مفادات پورے نہ ہونے پر اگر وفاق کے وجود پر ہی حملہ آور ہو جاتے ہیں تو یہ پھر حقوق کا معاملہ نہیں رہتا۔ یہ ریاست کے خلاف جنگ بن جاتی ہے۔بلوچستان میں گوادر جیسے وفاق کے کسی معاشی منصوبے میں بلوچستان کے جائز حقوق کے حصول کا مطالبہ بالکل بجا ہے لیکن یہ کہنا کہ بلوچستان میں وفاق کو آنے کا کوئی حق ہی نہیں، بالکل غلط بات ہے کیونکہ صوبے میں اور ایک متوازی ریاست میں بہر حال فرق ہوتا ہے۔
مبصرین کے مطابق وفاق اپنے صوبوں میں معاشی منصوبے بھی لاتا ہے اور ان منصوبوں کے لیے افرادی قوت بھی ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جاتی ہے۔ صوبائی حقوق کے نام پر کوئی صوبہ اس عمل کو نہیں روک سکتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ریاست کے اندر اصلاح احوال کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے اور کبھی یہ بہت شدید بھی ہو جاتی ہے، لیکن اس کی بنیاد پر دہشت گردی کا کوئی جواز قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ وفاق کے اندر کسی ایک یونٹ کو کتنے ہی شکوے شکایات ہوں، ان کا حل سیاست، مفاہمت اور مکالمے سے نکل سکتا ہے، دہشت گردی سے نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صوبوں کے جائز حقوق کو ہر سطح پر یقینی بنانا چاہیے اور یہ کام اہلِ سیاست ہی کر سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے دہشت گردی کو کچلنا ضروری ہے اور یہ کام صرف فوج ہی کر سکتی ہے۔ جس کا جو کام ہے، اسی کو کرنا چاہیے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کے لیے اس ترتیب کا درست رہنا بھی بہت ضروری ہے۔ مبصرین کے بقول بلوچستان کی سماجی اور سیاسی فالٹ لائنز کو بھرنے کے لیے سیاست دانوں کو آگے آنا ہو گا۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست اور اس سے جڑے لوگ جتنے معتبر ہوں گے، دہشت گرد اس معاشرے میں اتنے ہی نا معتبر ہوتے جائیں گے۔
ٹرین حملہ : بلوچ علیحدگی پسندوں کی مشترکہ جارحانہ حکمتِ عملی
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان اس وقت بین الاقوامی مفادات کا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ سی پیک کے معاملات جیسے جیسے آگے آگے بڑھیں گے، اس جنگ میں شدت آنے کا امکان ہے۔ یہ علاقہ بین الاقوامی تزویراتی اور معاشی لڑائی کا میدان بن چکا ہے۔ یہ جنگ ہمہ جہت ہے۔ اس سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی ہمہ جہت ہو گی تو کارگر رہے گی۔یہ جنگ لڑنے کے لیے یکسوئی بہت ضروری ہے۔ اگر مگر چونکہ چنانچہ کا وقت گزر چکا۔ تاہم اگر اب بھی اس حوالے سے کوئی مربوط حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو خدانخواستہ ملک کسی بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے۔