عدم اعتماد کا سانپ اپوزیشن کو ڈسنے والا ہے یا وزیراعظم کو؟
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر ہونے سے شروع ہونے والا سانپ اور سیڑھی کا کھیل اب اپنے فائنل راؤنڈ میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اپنی اپنی کامیابی کا دعوی کرنے والی اپوزیشن اور حکومت میں سے 99 کے ہندسے پر پہنچنے کے بعد سانپ کسے ڈستا ہے؟ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد عمران خان کی اپنی جماعت کے اندر سے ہی آستین کے کئی سانپ انکو ڈسنے کے لیے اپنے پھن پھیلا چکے ہیں اس لیے ان کی کامیابی کا امکان معدوم نظر آتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف لائی گئی تحاریک عدم اعتماد کے مقابلے میں عمران کے خلاف دائر تحریک کی کامیابی کے امکانات اس لیے زیادہ ہیں کہ ان کی جماعت کے اندر پھوٹ پڑ چکی ہے اور ان کے اپنے ہی ساتھی ان کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی اتحادی جماعتیں بھی ان سے دوری اختیار کرتی نظر آتی ہیں لہذا لگتا یوں ہے ہیں کہ اس مرتبہ سانپ انہی کو ڈسنے والا ہے خصوصا جب ان کو برسر اقتدار لانے والی طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی نیوٹرل ہوچکی ہے اور انہیں بچانے کے عمل میں ماضی کی طرح حصہ دار بننے سے انکاری ہے۔ سنجیدہ حلقے متفق ہیں کہ پہلی مرتبہ کپتان کو ایک سنجیدہ اور حقیقی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
عمران کے لیے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان کی حکومت بنوانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے جہانگیر خان ترین اور علیم خان ان سے راہیں جدا کر چکے ہیں اور شنید ہے کہ انکے گروپ کے 20 اراکین قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ دوسری جانب گجرات کے چوہدری وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے لیکن وزیراعظم عثمان بزدار کو نہ ہٹانے کی ضد پر قائم رہے جس کے بعد اب چودھری شجاعت حسین نے دوبارہ سے اپوزیشن کا رخ کرلیا ہے اور وزارت اعلی کے بجائے پرویز الہی کی اسپیکر شپ برقرار رکھنے کے عوض اپنی حمایت کا یقین دلارہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پانچ سیٹ رکھنے والی قاف لیگ کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جب عمران خان کی اپنی جماعت کے لوگ ان سے علیحدہ ہونے پر تیار ہیں تو پھر ان کی اتحادی جماعتیں کیسے ان کے ساتھ کھڑی رہ سکتی ہیں؟
کپتان کے لیے ایک اور بڑی پریشانی یہ ہے کہ سر توڑ کوشش کے باوجود قومی اسمبلی میں پانچ نشستیں رکھنے والی بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت نے ان سے ملاقات سے انکار کر دیا ہے۔ ماضی قریب میں بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ سے ہٹائے جانے والے باپ کے مرکزی رہنما جام کمال نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ فی سبیل اللہ عمران خان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اسی طرح وزیر اعظم کے حالیہ دورہ کراچی میں قومی اسمبلی میں تین سیٹیں رکھنے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی قیادت نے بھی ان سے ملاقات سے معذوری ظاہر کر دی۔
دورہ کراچی میں عمران کی متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے ملاقات تو ضرور ہوئی لیکن اس کے بعد عامر خان نے یہ بیان داغ دیا کہ وزیراعظم نے نہ تو تحریک عدم اعتماد پر ان سے حمایت مانگی اور نہ ہی انہوں نے کوئی یقین دہانی کروائی۔ قومی اسمبلی میں سات نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم کے کنوینر عامر خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایم کیو ایم کی تمام آپشنز اوپن ہیں۔ لہذا کپتان کی چاروں اتحادی جماعتیں ان کا مزید ساتھ دینے پر ڈانواں ڈول نظر آتی ہیں۔
لیکن عمران خان کے لیے سب سے مشکل صورتحال تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد پارٹی کے اندر سے ہونے والی بغاوت ہے جس کا نشانہ وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار بھی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی سر توڑ کوششوں کے باوجود ان سے ناراض ہونے والے جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان اب ان سے رابطے میں نہیں آ رہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت ختم کریں گے بلکہ مرکز میں کپتان کے خلاف بھی کھڑے ہوجائیں گے۔
کبھی عرش پرکبھی فرش پرکبھی ان کے درکبھی دربدر، طنزیہ ٹویٹ
وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرانے کے تناظر میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت میں بھی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور جوڑ توڑ میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن ذرائع پر اعتماد ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی کی اتنی بڑی تعداد عمران خان کے خلاف کھڑی ہوجائے گی کہ ان کے پاس استعفی دینے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں بچے گی۔
Is snake of distrust going to bite the opposition or the PM?