کیا جنرل فیض عمران خان کیخلاف سلطانی گواہ بننے والے ہیں؟
الیکشن 2018 کے بعد وزیراعظم عمران خان کی حکومت چلانے والے اور انکے اقتدار سے نکلنے کے بعد تحریک انصاف کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے 9 مئی 2023 کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کے کورٹ مارشل کی کارروائی اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور ان کو اگلے دو ہفتوں میں سزا سنائے جانے کا قوی امکان ہے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے وکیل بیرسٹر میاں علی اشفاق نے سینیئر صحافی انصار عباسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فیض حمید کا فوجی ٹرائل آئندہ چند ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا۔ علی اشفاق کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس میں اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ جنرل فیض حمید کی وکالت کر رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل فیض اہنے سابقہ باد عمران خان کیخلاف سلطانی گواہ بننے جا رہے ہیں تو میاں اشفاق کا کہنا تھا کہ میں ایسی کسی بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ مقدمے کی کارروائی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے دائرے میں آتی ہے۔ جب ان سے جنرل فیض کیخلاف ملٹری ٹرائل کے متوقع فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد ان کا ٹرائل شروع ہو ہے، اور اگلے چند ہفتوں میں کورٹ مارشل کا فیصلہ آنے کا امکان ہے۔ بیرسٹر میاں اشفاق نے فیض حمید کو متوقع طور پر سزائے موت سنائے جانے کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
یاد رہے کہ فوجی ترجمان نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے اور ان پر 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام بھی شامل ہے۔ انکا مذید کہنا تھا کہ فیض حمید پر دائر خعدہ چسرج شیٹ میں باضابطہ طور پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی سمیت کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر ترجمان کا کہنا تھا کہ ان خلاف ورزیوں سے ریاستی سلامتی اور مفادات پر سمجھوتہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیض کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیوں، اختیارات اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور افراد کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت باضابطہ طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ سیاسی مفادات کے لیے 9 مئی کی سازش تیار کرنے کے الزام پر بھی فیض حمید کو چارج شیٹ کیا جا چکا ہے۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ چارج شیٹ کیے جانے کے بعد فیض حمید کو یقینی طور پر سزا ملنے جا رہی ہے اور انہیں آئندہ چند ہفتوں میں سزائے موت سنائے یا عمر قید جیسی کڑی سزائیں سنانے کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید کو ٹاپ سٹی سکینڈل میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں تفتیش کے دوران انہوں نے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا جن میں 9 مئی کے روز ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ 9 مئی کے واقعات عمران خان کی گرفتاری کے دو روز بعد ہوئے جبکہ عمران خان نے اپنی گرفتاری سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر انہیں حراست میں لیا گیا تو ملک بھر میں ہنگامے شروع ہو جائیں گے۔ جنرل فیض حمید پر 9 مئی کے ہنگاموں کے چیف منصوبہ ساز ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جس کے بعد اس الزام پر عمران خان کا ٹرائل بھی یقینی ہو گیا ہے۔
آئی ایس پی ار کی جانب سے یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے اگلے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے اور انھیں باقاعدہ چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب راولپنڈی میں انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی ایک نہیں بلکہ کئی کارروائیاں بیک وقت جاری ہیں۔ انہیں گرفتار تو ٹاپ سٹی اسکینڈل میں کیا گیا تھا لیکن دوران تفتیش کئی ایسے سنگین کیسز بھی سامنے آئے جن کی بنیاد پر ان کے خلاف مزید مقدمات بھی بنا دیے گئے۔ جنرل فیض حمید کو 9 مئی 2023 کو فوجی بغاوت کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے جب ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے گے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سازش کے الزام میں 200 سے زائد فوجی افسران کے خلاف کاروائیاں پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق فیض حمید پر تقریبا تمام کیسز میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد انکوائریاں جاری ہیں اور اب معاملات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں جس کے بعد اگلے چند ہفتوں میں انہیں سخت ترین سزائیں سنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فیض حمید پر نئے الزامات میں بغاوت کی سازش کے علاوہ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے مفادات کے خلاف سازش کا الزام بھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ فیض حمید کو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 12 اگست 2024 کو کورٹ مارشل کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔ معیز نے الزام لگایا تھا کہ فیض کے ایما پر 12 مئی 2017 کو رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ٹاپ سٹی کے دفتر اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ فیض حمید کے بھائی سردار نجف حمید پٹواری نے ٹاپ سٹی ہاؤزنگ سوسائٹی کی زمین اپنے نام کروانے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا فیض کے ایما پر آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے معیز کو زبردستی 4 کروڑ روپے نقد ادا کرنے پر بھی مجبور کیا۔ یاد رہے کہ تب فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔