کیا پاکستان مخالف افغانیوں کا ڈی این اے احسان فراموشی سے بنا ہے؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ افغان یا طالبان کے پاکستان مخالف ہونے کی تین بڑی وجوہات ہیں‘ لیکن بنیادی وجہ احسان فراموشی ہے‘ کیونکہ افغانوں کا ڈی این اے ہی احسان فراموشی سے بنا ہوا ہے۔
اپنے تازہ تر سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ طالبان حکومت کے تمام اہم عہدے دار 20 سال پاکستان کی پناہ میں رہے۔ ان کی حفاظت کیلئے پاکستان نے جتنا دباؤ برداشت کیا وہ ایک ناقابل یقین کہانی ہے‘ پاکستان نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان کی شوریٰ کے 25 ارکان کو اپنے پاس محفوظ رکھا‘ آج کی افغان حکومت کے 34 گورنر‘ طالبان کی شیڈو گورنمنٹ کے 16 وزراء اور طالبان فوج کے 500 کمانڈرز پاکستان کے پاس رہے‘ پاکستان نے طالبان کے 54 ہزار زخمیوں کا علاج بھی کیا۔
جاوید چوہدری یاد دلاتے ہیں کہ یہ سلسلہ 21سال چلا اور اس دوران پاکستان نے ان کو رقم بھی دی‘ رہائش گاہیں بھی‘ راشن بھی اور سیکیورٹی بھی‘ 2018 میں جب دوہا میں مذاکرات شروع ہوئے تو 165 ملاقاتیں ہوئیں اور ان لوگوں کو پاکستان اپنے اخراجات پر قطر لے جاتا اور ان کی میٹنگز کراتا رہا۔ طالبان حکومت کے آج کے تمام وزراء پاکستان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے پاکستانی اداروں اور مدارس میں تعلیم حاصل کی، لیکن آج یہ پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے پاکستان پر حملے بھی کر رہے ہیں‘ لہٰذا میں اسے افغانوں کا کریکٹر کہتا ہوں جب کہ ہمارے بزرگ اور استاد مفتی عبدالرحیم کا دعویٰ ہے اس کے پیچھے امریکی اور بھارتی ہیں۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ امریکا نے طالبان سے 2013میں دوہا میں دفتر کھلوایا تھا‘ طالبان دس سال دوہا میں آتے جاتے رہے‘ انھیں ایک خاص ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا تھا‘ ان دس برسوں میں امریکیوں نے ان کی تمام کالز بھی ریکارڈ کیں اور ای میل بھی‘ ان کے فون بھی ہیک ہوئے اور ان کی عادتوں کا مطالعہ بھی کیا گیا، چناں چہ دس برس میں امریکا ان کے تمام رشتے داروں‘ جائیدادوں اور اکاؤنٹس تک پہنچ گیا اور ان کی عادتیں اور کم زوریاں بھی بھانپ گیا‘ بھارت کی را بھی اس دوران دوہا میں ان سے رابطے میں رہی‘ پاکستان صرف ان کے نخرے اٹھاتا رہا جبکہ یہ بھارت اور امریکا کی گود میں کھیلتے رہے‘ پاکستان نے 2021میں ان کا امریکا سے معاہدہ کرایا لیکن یہ ایک اوپن ایگریمنٹ تھا جب کہ ان کا امریکا کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا۔
اس معاہدے میں ٹی ٹی پی کو قائم رکھنا اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شامل تھا اور طالبان تین برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں‘ امریکا اس کے بدلے انھیں ہر سال چھ ارب ڈالرز دیتا ہے‘ افغانستان کا کل بجٹ دو ارب 60 کروڑ ڈالرز ہے‘ اتنی چھوٹی سی اکانومی میں چھ ارب ڈالر ہر سال اضافی پمپ کر دیا جاتا ہے‘ یہ رقم طالبان کو کیوں مل رہی ہے اور یہ کس کی جیب میں جاتی ہے؟ یہ سوال ہمیں طالبان سے پوچھنا چاہیے تھا‘ بھارت کے ساتھ بھی طالبان کا ایسا ہی تعلق ہے۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست نے طالبان کے ایک وزیر سے پوچھا کہ ’’ہم نے چالیس سال آپ کی خدمت کی‘ اور اس خدمت میں پورا ملک برباد کرا لیا لیکن آپ آج بھارت کی گود میں بیٹھ رہے ہیں‘ آخر کیوں؟‘‘ افغان وزیر نے ہنس کر جواب دیا ’’ہمارے پاس جب پاکستانی آتے ہیں تو ان کے بریف کیسوں سے مشورے نکلتے ہیں جب کہ بھارتی لوگ بریف کیسوں میں نوٹ بھر کر لاتے ہیں، لہٰذا تم خود بتاؤ ہم تمہاری بات سنیں یا بھارت کی!‘‘ یہ ہے افغان طالبان کا ڈی این اے‘ یہ پیسے کی سنتے ہیں اور صرف اسی پر ان کا ایمان بدلتا ہے۔
افغانستان کے اندر ایک اور ایشو بھی ہے‘ طالبان دو حصوں میں تقسیم ہیں‘ قندہاری اور حقانی گروپ‘ افغانستان کو فتح حقانی گروپ نے کیا تھا‘ یہ قندہاریوں کی نسبتاً پاکستان کے زیادہ قریب ہیں‘ دوسری طرف قندہاری ہیں‘ ان دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی ہے‘ ملا عمر کے زمانے میں حقانیوں کو بے اختیار رکھا گیا تھا‘ 2021 کے بعد سراج الدین حقانی کو وزارت داخلہ ملی اور یہ انتہائی تگڑی وزارت ہے لیکن اب امیرالمومنین ہیبت اللہ اخواندزادہ نے سراج الدین حقانی کے اختیارات کم کرنا شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں قندہاری گروپ کے سربراہ ملا یعقوب مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یعقوب اس وقت وزیر دفاع ہیں اور ان کے بھارت اور را کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں‘ افغانستان میں اب ہر دوسرا بندہ یہ کہہ رہا ہے کہ بھارت ملا یعقوب کو مسلسل پیسے دے رہا ہے اور ملا انھیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں، لہٰذا وہ وقت دور نہیں جب بھارت افغانستان میں اشرف غنی کے زمانے کے تمام قونصل خانے کھول لے گا اور کابل اور قندہار میں بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچائے گا۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ سراج الدین حقانی کے چچا حاجی خلیل حقانی کو 11 دسمبر 2024 کو کابل میں قتل کر دیا گیا تھا‘ وہ انتہائی زیرک اور بہادر انسان تھا‘ وہ قبائلی سیاست کو بھی سمجھتا تھا‘ ملکی سیاست کو بھی اور پاکستان کا بھی دل سے خیرخواہ تھا اور یہ خوبیاں اس کی جان لے گئیں‘ حقانیوں کا خیال ہے حاجی خلیل حقانی کو بھارت نے قتل کرایا کیوں کہ وہ بھارتی عزائم کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ ہم اب آتے ہیں اس بنیادی سوال کی طرف کہ ’’کیا پاکستان افغانستان کو کنٹرول نہیں کر سکے گا؟‘‘ اس کا سیدھا سادا جواب ہے دنیا میں اگر کوئی ملک افغانستان کا ایکسپرٹ ہے تو اس کا نام پاکستان ہے‘ پاکستان نہ صرف افغانوں کے تمام قبائل کو جانتا ہے بلکہ یہ ان کی نسلوں‘ زبانوں اور مذہبی اختلافات تک سے واقف ہے۔
پاکستانی طالبان کس کی مدد سے سب سے بڑا دہشت گرد گروپ بنے؟3
پاکستانی آج بھی ان کے تمام گروہوں سے رابطے میں ہیں‘ افغانوں نے اگر سوویت یونین کو شکست دی تھی یا امریکا 20 سال بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہو گیا تو اس کا سارا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے‘ پاکستان نہ ہوتا تو سوویت یونین آج تک افغانستان کو ریت کا ٹیلہ بنا چکا ہوتا اور اگر پاکستان افغانوں کی مدد نہ کرتا‘ اور طالبان کو زندہ نہ رکھتا تو آج یہ امریکا کی 51ویں ریاست ہوتا‘ افغانوں کی اہلیت کی حالت یہ ہے کہ یہ 1992میں روس کے جانے کے بعد چار برسوں میں ہی آپس میں لڑ لڑ کر مر گئے تھے۔
یہ کوئی متفقہ حکومت نہیں بنا سکے تھے اور 2001 میں صرف 35 دنوں میں امریکا کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہو گئے تھے‘ افغانستان انسانی تاریخ کا پہلا ملک تھا جو زمینی فوجوں کے بغیر فتح ہو گیا تھا‘ امریکی فوج 2001 میں طالبان کے فرار کے بعد افغانستان میں داخل ہوئی تھی، لہٰذا اگر پاکستان چاہے تو یہ ایک ہفتے میں طالبان حکومت کو پیک کر دے گا لیکن پاکستان اب بھی افغانوں کو رعایتی نمبر دے گا‘ یہ نہیں چاہتا یہ اپنے ہی بت اپنے ہاتھ سے توڑ دے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے افغان شاید پاکستان کی اس محبت کو اس کی کم زوری سمجھتے ہیں، لہٰذا یہ دو ماہ میں کچھ نہ کچھ ایسا کر کے رہیں گے جس کے بعد پاکستان کو مجبوراً اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑے گی اور اس کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائین کی دوسری طرف کوئی غزنوی بچے گا اور نہ ہی کوئی ابدالی۔