کیا مریم نواز کی بیماری کا علاج صرف امریکہ میں ہی ممکن ہے؟

علاج کے نام پر بیرون ملک کئی برس تک جلاوطنی کاٹنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد اب ان کی صاحبزادی وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا علاج کے لیے امریکہ جانا پاکستان میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کا علاج کے لیے بیرون ملک جانا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن مریم نواز کے بیرون ملک علاج کو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے ایک ایشو بنا ڈالا ہے۔

مریم نواز کے ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب کے عوام خطرناک سموگ میں گھرے ہوئے ہیں، مریم ان کے بارے میں سوچنے کی بجائے اپنے علاج کے خاطر امریکہ چلی گئی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نون لیگ پچھلے تین دہائیوں سے پنجاب میں حکمران ہے لیکن کیا ایک ایسا اسپتال بھی نہیں بنا پائی جہاں مریم نواز کا اپنا علاج ہو سکے۔

دوسری جانب مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ انہیں پیراتھائی رائیڈ کا مسئلہ درپیش ہے جس کا مکمل علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔

مریم نواز نے امریکہ سے لندن پہنچ کر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’میری صحت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ خدانخواستہ مجھے کینسر ہے لیکن مجھے کینسر نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ میں نے اپنا علاج پاکستان سے کیوں نہیں کروایا تو میں بتانا چاہتی ہوں کہ میرا علاج پاکستان میں ہی ہوتا ہے لیکن پیراتھائرائیڈ ایسی بیماری ہے جس کا علاج پوری دنیا میں صرف دو ممالک سوئزرلینڈ اور امریکہ میں ہی ہوتا ہے۔

مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ پیرا تھائرائیڈ کا علاج انگلینڈ میں بھی نہیں ہوتا صرف سوئٹزرلینڈ اور امریکہ میں اس بیماری کا علاج ممکن ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جنوری 2023 میں سوئٹزرلینڈ میں ان کی سرجری ہوئی تھی، اب بھی وہ علاج کروانے کے بعد دو روز میں پاکستان پہنچ رہی ہیں۔ مریم کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی بیماری سے متعلق بات نہیں کرنا چاہتی تھیں، ان کی ایسی تربیت ہی نہیں کہ وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں لیکن مجبوراً انھیں اس پر بات کرنا پڑی کیونکہ انہیں بلاوجہ ہے سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

مریم نواز کے اس موقف کے بعد جہاں سوشل میڈیا صارفین میں یہ تجسس ہے کہ انہیں کون سی بیماری لاحق ہے، وہیں بہت سارے صارفین مریم کے اس موقف پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی پیراتھائرائیڈ کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں یے۔ ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پیراتھائی رائیڈ کیا ہوتے ہیں؟پیرا تھائی رائیڈ انسانی جسم میں موجود ایسے غدود ہوتے ہیں جو پی ٹی ایچ یا پیراتھائرائیڈ ہارمون خارج کرتے ہی جس کا کام خون میں کیلشیم کی مقدار کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔

امریکہ کی ریاست ورجینیا کے پروفیسر ڈاکٹر متین ہوتیانہ کے مطابق ’ہماری گردن کے سامنے والے حصے میں ایک گلینڈ ہوتا ہے جسے تھائی رائیڈ گلینڈ کہتے ہیں۔ اس کے پیچھے مٹر کے دانے کے برابر چار پیرا تھائی رائیڈ گلینڈز ہوتے ہیں۔ دو گلینڈز دائیں جانب اور دو بائیں جانب ہوتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس بیماری کا نام پرائمری ہائپر پیراتھائی رائیڈازم ہے۔

پیراتھائی رائیڈ گلینڈ کا بنیادی کام جسم میں کیلشیم کی مقدار کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ جب ان چاروں میں سے کوئی ایک گلینڈ غیر متوازن ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ پیراتھائی رائیڈ ہارمون پیدا کرتا ہے جو ہماری ہڈیوں میں سے کیلشیم کو نکالتا ہے۔ اس سے خون میں کیلشم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

خیال رہے کہ طبی تحقیق کے مطابق کیلشیم انسانی جسم میں موجود ایک اہم چیز ہے۔ یہ سب سے زیادہ تو ہڈیوں میں پایا جاتا ہے لیکن خون میں بھی اس کی صحیح مقدار میں موجودگی ضروری ہے کیونکہ یہ انسانی اعصاب کے کام کرنے، جسم کو حرکت دینے کے لیے درکار پٹھوں کے کھنچاؤ، خون کے جمنے اور دل کے صحیح طریقے سے کام کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔

پیراتھائی رائیڈ غدود میں خرابی کے نتیجے میں ضرورت سے کم یا پھر زیادہ ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جس کا اثر خون میں کیلشیم کی مقدار پر پڑتا ہے۔ پیراتھائی رائیڈ کی علامات میں پیٹ میں شدید درد ہونا، بہت زیادہ قبض رہنا، گردوں میں پتھری بن جانا اور ہڈیاں اچانک سے کمزور ہو جانا شامل ہیں۔

پیراتھائی رائیڈ نامی بیماری کا بنیادی علاج سرجری ہے اور چاروں میں سے جو بھی گلینڈ ایبنارمل ہو اسے سرجری کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس کا علاج صرف امریکہ اور سوئزرلینڈ میں ہی ممکن ہے اور پاکستان میں اس علاج کی سہولت میسر نہیں۔ درحقیقت پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آسانی سے اس بیماری کی تشخیص اور علاج بھی ممکن ہے۔ اس کے علاج کے لیے ادویات اور انجیکشن بھی پاکستان میں دستیاب ہیں اور اگر سرجری کرنی ہو تو وہ بھی پاکستان میں ممکن ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا اس بیماری کی کوئی ایسی سٹیج بھی ہے، جس کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پیراتھائی رائیڈ کی ہر سٹیج کا علاج پاکستان میں ممکن ہے۔ تاہم ڈاکٹر متین ہوتیانہ اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ اس مرض کی بنیادی سرجری پاکستان میں ممکن ہے لیکن ان کے مطابق ’دنیا کے بڑے ممالک میں ایک نئی سرجری بھی متعارف کروائی گئی ہے جسے ایم آئی ایس کہا جاتا ہے اور یہ فی الحال پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔

بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے مریم نواز کی دھلائی کیوں کر دی؟

ڈاکٹر متین ہوتیانہ نے کہا کہ ’اس کا بنیادی طریقہ علاج سرجری ہے۔ دو طرح کی سرجری ہو سکتی ہے ایک میں گردن کے سامنے کٹ لگا کر چاروں غدود دیکھے جاتے ہیں اس میں خون کا ضیاع بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ تکلیف دہ بھی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اب بڑے ممالک میں ایم آئی ایس نامی سرجری متعارف کروائی گئی ہے۔ اس میں خون بھی کم ضائع ہوتا ہے اور مریض کو تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور وہ کچھ گھنٹوں بعد گھر واپس جا سکتا ہے۔ لیکن جدید سرجری کی سہولت پاکستان میں ابھی میسر نہیں، یہ صرف امریکہ اور چند بڑے ممالک میں موجود ہے۔

Back to top button