کیا PTI کی مذاکرات کی خواہش کی اصل وجہ فیض حمید کا ٹرائل ہے؟

عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان کیساتھ ہی ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دیے جانے کی بنیادی وجہ فیض حمید کی متوقع سزا کو قرار دیا جا رہا ہے جنہیں اب 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی سازش تیار کرنے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ عمران خان کو خدشہ ہے کہ اگر فیض حمید کو اس الزام پر سزا دی جاتی ہے تو اگلے مرحلے میں انہیں بھی اس الزام پر ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا یے۔

خیال رہے کہ طویل احتجاجی مہم اور حکومتی اداروں سے جھڑپوں کے بعد بالآخر تحریک انصاف نے باضابطہ طور پر حکومت سے مذاکرات کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان نے ایک پانچ رُکنی کمیٹی بھی بنا دی ہے لیکن پھر بھی فریقین کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی فی الحال کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ابھی گذشتہ مہینے ہی پی ٹی آئی کے مظاہرین عمران خان کی رہائی کا مطالبہ لیے دھرنا دینے اسلام آباد آئے تھے لیکن سکیورٹی فورسز کا ایکشن شروع ہوتے ہی جوتیاں اٹھا کر واپس پشاور کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے۔ بھاگنے والوں میں بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور نمایاں تھے۔ اس دوران 5 سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ پی ٹی آئی کے 5 کارکنان بھی ہلاک ہوئے تھے۔ تہم تحریک انصاف کی قیادت نے اسے سیاسی سٹنٹ بناتے ہوئے یہ دعوی کر دیا کہ سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے اس کے 300 کے قریب کارکنان مارے گئے تھے۔ بعد ازاں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے خود اس دعوے کی تردید کر دی جس سے پارٹی کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا ہے۔

اسلام اباد کی جانب احتجاجی مارچ کی کال دیتے وقت بھی پی ٹی آئی کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ مذاکرات صرف ‘بااختیار’ افراد سے ہوں گے جس سے مراد طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہی تھی۔ لہازا سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ چند ہی ہفتوں میں پی ٹی آئی کے مؤقف میں تبدیلی آ گئی اور اس نے حکومت سے مذاکرات کے لیے حامی بھرلی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں جو ایک اور سوال سامنے آیا وہ یہ تھا کہ مذاکراتی کمیٹی بننے کے باوجود کوئی بات چیت کیوں نہیں ہو پا رہی؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے سے بات چیت میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت اتنے ‘یوٹرن’ لے چکی ہے کہ اب انکی بات پر حکومت کو اعتبار نہیں ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ’جب تک پی ٹی آئی کی قیادت 9 مئی کے واقعات پر سرِعام معافی نہیں مانگتی اس وقت تک اس جماعت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔‘
اگرچہ حکومتی وزرا 9 مئی 2023 کو عمران کی گرفتاری کے بعد توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ پر تحریک انصاف کی قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تاہم خود تحریک انصاف نے اُن پُرتشدد واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی تھی، بلکہ عمران خان نے عسکری تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملوں کو ’فالس فلیگ آپریشن‘ کہا تھا۔

ادھر پاکستانی سیاسی تجزیہ کار طلعت حسین کا بھی ماننا یہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات پر کسی طور بھی مذاکرات نہیں ہوں گے اور ‘ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یہ پیغام واضح ہے۔’ رانا ثنا اللہ کے مطابق اگر حکومت اور پی ٹی آئی کی کمیٹی کے درمیان مذاکرات ہوں بھی جائیں تب بھی ‘عمران خان کو مطمئن کرنا مشکل ہوگا کیونکہ اس جماعت میں اعتماد کا فقدان ہے۔’
پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم اور رانا ثنا اللہ دونوں نے تصدیق کی ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان کوئی رابطے میں نہیں۔
ایک طرف تو پی ٹی آئی کی قیادت حکومت سے مذاکرات کی بات کر رہی ہے اور دوسری طرف جماعت کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد کی ایک عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26 نومبر کو احتجاج کے دوران ڈی چوک پر کارکنان کے خلاف کارروائی کا مقدمہ وزیر اعظم سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ بتاتے ہیں کہ ان کی جماعت 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کروانے کے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت نے عدلیہ سمیت دیگر اداروں کو اپنے ‘تابع کرلیا ہے تو پھر ان واقعات سے متعلق عدالتی تحقیقات کروانے سے کیوں بھاگ رہی ہے۔’ انھوں نے کہا کہ ‘عمران خان نے ہر ایک سے مذاکرات کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی ضرور بنائی ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ تحریک انصاف اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے۔’ تاہم پی ٹی آئی رہنما کے مطابق مذاکرات میں تمام ’سٹیک ہولڈرز‘ کو شامل کرنے سے ہی کامیابی مل سکتی ہے۔

اسلام آباد میں سیاسی صوتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار طلعت حسین کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا حکومت سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار دراصل فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بڑھتی ہوئی دوری کا نتیجہ ہے۔
‘مذاکرات کی بات اس وجہ سے کی جا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں اور ان کا مقصد اس بات سے توجہ ہٹانا ہے۔’ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر 26 نومبر کے واقعات میں پی ٹی آئی کے کارکنان ہلاک ہوئے ہیں یا ان کے کچھ لوگ لاپتہ ہوئے ہیں تو خیبر پختونخوا میں ذمہ داران کے خلاف مقدمات کیوں نہیں درج کروائے گئے؟‘ انھوں نے کہا کہ ‘پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ مذاکرات کی بات کرکے خود کو معقول جماعت بنائیں۔’

تاہم سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’26 نومبر کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کے لیے رضامندی کا اظہار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ 26 نومبر کا سخت حکومتی ردعمل ان کی سوچ میں تبدیلی کا سبب بنا ہے کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت اس طرح کے حکومتی ردعمل کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ چونکہ اس لمحے پر اندرونی اختلافات، کارکنوں میں مایوسی کی وجہ سے تحریک کسی خونی انقلاب یا مزید جلاو گھیراؤ کی متحمل نہیں ہو سکتی اس لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’ تاہم طلعت حسین کے مطابق پی ٹی آئی کا مقصد عمران خان کے خلاف درج مقدمات کو ختم کروانا ہے۔

Back to top button