کیا پاک بھارت تعلقات میں بڑا بریک تھرو ہونے جارہا ہے؟
سفارتی حلقوں میں خبریں گرم ہیں کہ ساؤتھ ایشیا کے دو روایتی نیوکلیئر حریفوں پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں بڑا بریک تھرو ہونے جا رہا ہے جس کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پاکستان کا دورہ بھی کر سکتے ہیں۔حال ہی میں ملک کی معروف کاروباری شخصیت میاں محمد منشا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی روابط بحال کرنے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے بات چیت جاری ہے جس کے بہت جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
میاں منشا کے اس بیان پر وفاقی حکومت کا تو کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے البتہ پاکستان کا ماضی میں یہ مؤقف رہا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتا اس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد عملا یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے اور حکومت پاکستان بھی خاموش ہے۔
کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دینے والی ریاست بھی خاموش ہے حالانکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کی آڑ میں توسیع دی تھی۔ سفارتی حلقوں کا کہنا یے کہ اگر ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ ہونے جارہا ہے۔
بھارت کےساتھ تجارتی روابط کی بحالی کے لیے بیک ڈور چینل گفت و شنید سے متعلق میاں منشا کے بیان پر تاجر برادری منقسم نظر آتی ہے۔ بعض تاجروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط پاکستان کے مفاد میں ہیں جب کہ بعض کے خیال میں قومی مؤقف پر سمجھوتا کر کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ حال ہی میں ایوانِ صںعت وتجارت لاہور میں تاجروں کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے میاں منشا نے کہا تھا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان معاملات بہتر ہوئے تو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ایک ماہ کے اندر پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ کوئی دشمنی مستقل نہیں ہوتی جن ملکوں نے دو عالمی جنگیں لڑیں وہ بھی امن کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن صنعت کار میاں ابوزر شاد کے خیال میاں منشا کا بیان مناسب نہیں۔ اُنکے مطابق پاکستان کو بھارت کیساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت برابری کی پالیسی کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ بھارت پاکستان سے نمک لیتا ہے جس کو وہ مزید بہتر بنا کر دوسرے ممالک کو بیجتا ہے۔
اِسی طرح بھارت پاکستان سے جپسم لیتا ہے اور سیمنٹ بنا کر بیچتا ہے۔ پاکستان یہ سب کام خود بھی کر سکتا ہے۔ اُن کی رائے میں پاکستان کو اپنا کوئی بھی خام مال بھارت کو برآمد نہیں کرنا چاہیے۔ اُن کے بقول پاکستان بھارت سے کپاس، کیمیکل اور اجناس درآمد کرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بھارت نے اپنی صنعت کی بہتری اور تحقیق پر بہت کام کیا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں گندم کی فی ایکٹر پیداوار 40 من ہے جب کہ بھارت میں 80 من فی ایکٹر ہے۔
تاہم ایوانِ صنعت وتجارت لاہور کے سابق صدر انجینئر الماس حیدر اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تجارتی منڈی جتنی زیادہ بڑی ہو اور کھلی ہو اُس کا فائدہ کاروبار کے پھیلاؤ کی صورت میں ہوتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان کو پاک بھارت تجارتی تعلقات، پاک ایران تجارتی تعلقات یا پاک افغان تجارتی تعلقات سے آگے نکل کر سوچنا چاہیے۔
کپتان نے خودکشی کی ذمہ داری پاکستانی عوام پر کیسے ڈالی؟
اُنہوں نے کہا کہ تجارت کا تو اصول ہی یہ ہے کہ تجارت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اُنہوں نے بتایا کہ کہ یورپ میں جب تجارتی لحاظ سے سرحدوں کو ختم کیا گیا تو اُن ملکوں کے کاروبار چھوٹے ہونے کے بجائے بڑھتے تھے اور ان کی صنعتوں کو فروغ حاصل ہوا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈبلیو ٹی او بھی اِسی لیے آیا تھا جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سرحدوں کو کھولا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کو بڑھایا جائے۔ ایسا کرنے سے وہ ملک مقامی منڈی سے نکل کر عالمی منڈی (گلوبل منڈی) کی طرف جا سکے۔
خیال رہے کہ پاکستا ن نے اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ختم کر دیے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان زیادہ تر تجارت واہگہ اور کشمیر کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس سے قبل بھارت نے بھی فروری 2019 میں پاکستان کو پلوامہ حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے تجارت کے لیے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لے لیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی حجم کیا تھا؟سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں بھارت کو پاکستان کی برآمدات کا محض دو فی صد جب کہ اسی عرصے میں بھارت کی پاکستان کی برآمدات کا حجم محض تین فی صد تھا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 342 ارب روپے ہے جس میں سے پاکستان کی برآمدات کا حجم 56 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس حساب سے بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستان خسارے میں ہے یعنی تجارتی توازن بھارت کے حق میں ہے۔ پاکستان بھارت سے سبزیاں، کپاس، کیمیکل اور پلاسٹک درآمد کرتا ہے جب کہ پاکستان تازہ پھل، سیمنٹ، معدنیات اور چمڑے کی مصنوعات بھارت بھجواتا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان ماضی کو دفن کر کے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ البتہ عمران خان حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے تنازع کشمیر کا حل ضروری ہے۔
لہذا سفارتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اب پاکستانی فوجی قیادت بھارت کے ساتھ وسیع تر قومی مفاد میں معاملات بہتر کرنا چاہتی ہے جبکہ عمران خان حکومت عوامی رد عمل کے پیش نظر اس ایشو پر اپنی پالیسی واضح نہیں کر رہی۔ دوسری جانب حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب یوں حل ہو چکا کہ بھارت کشمیر کی خود مختاری ختم کرکے اس پر مکمل طور پر قابض ہو چکا ہے اور پاکستان خاموش ہے لہذا اب پاکستان کا یہ بہانہ بھی ختم ہو چکا ہے۔