افغان وزیر خلیل حقانی کے قتل کی سازش میں داعش کا ہاتھ نکل آیا
ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی مرحوم کے بھائی اور طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین خلیل حقانی کو خودکش حملہ آور کے ذریعے مارنے کی سازش داعش نے تیار کی تھی جسے بظاہر ہاتھ پر پلاسٹر چڑھائے ہوئے ایک مضروب شخص نے عملی جامہ پہنایا۔
یاد رہے کہ 70 سالہ خلیل حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع ‘گردی سڑی’سے تھا۔ خلیل حقانی سویت افواج کے خلاف افغان مزاحمت کاروں کے اہم کمانڈر جلال الدین حقانی کے چھوٹے بھائی اور افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا تھے۔
خلیل حقانی کے خودکش دھماکے میں مارے جانے کی ویڈیو سامنے اگئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خلیل گاڑی سے اُتر کر ملاقات کے منتظر افراد سے مل رہے تھے جب سائل کی شکل میں قریب کھڑے مبینہ خودکش حملہ آور نے انھیں پکارا اور اس کے بعد بظاہر امداد کے لیے انہیں ایک درخواست پیش کی جس پر دستخط کے دوران زوردار دھماکہ ہوا۔
طالبان حکام نے وہ فوٹیج بھی ریلیز کر دی ہے جس میں خودکش حملہ آور کی حملے سے پہلے کی سرگرمی دیکھی جا سکتی ہے۔ خودکش حملہ آور منصوبہ بندی کے تحت ظہر کی نماز کے دوران خلیل حقانی کو نشانہ بنانا چاہتا تھا تاہم ظہر کی نماز میں انھیں موجود نہ پا کر وہ وزرات مہاجرین کے داخلی دروازے پر موجود سائلین کے ساتھ اُن کے انتظار میں کھڑا ہو جاتا ہے۔
اس سی سی ٹی فوٹیج میں نظر آنے والے حملہ آور کی عمر لگ بھگ 30 ہے جبکہ وہ باریش ہے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور فریکچر کی وجہ سے ہاتھ میں ٹھوس پلستر پہنے ہوئے ہے اور پلستر میں موجود سٹیل راڈز بابت بتاتے ہوئے وہ سیکورٹی پر مامور محافظین کے سامنے موجود میٹل ڈیٹیکٹر سکینر سے گزر جاتا ہے۔
شام میں صدر بشار کی حکومت کے خاتمے پر PTI والے خوش کیوں ہیں ؟
مسجد کے اندر سے موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق وہ نماز کے وقت اول صف میں نظر آتا ہے مگر اس کے بعد وہ خلیل حقانی کو وہاں موجود نہ پا کر باہر آ کر ان کا انتظار کرتا ہے۔اجلاس کے بعد خلیل حقانی نے وہیں پر ظہر کی نماز ادا کی اور اپنی وزارت کی طرف جانے کے لیے نکل گئے جہاں خودکش حملہ آور اُن کا منتظر تھا۔ افغان حکام کے مطابق اس حملے میں خلیل حقانی سمیت اُن کے تین محافظین بھی مارے گئے۔
یاد رہے کہ خلیل حقانی کے قتل کو پاکستان کے لیے بھی ایک جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے چونکہ انہیں طالبان کی حکومت میں پاکستان نواز سمجھا جاتا تھا۔ وہ خود بھی ایک دہائی تک پاکستان میں مقیم رہے۔ طالبان میں حقانی خاندان کا کردار 2001 میں افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے حملہ میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد نمایاں ہوا۔ جلال الدین حقانی نے شمالی وزیرستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف حملوں کا آغاز کیا مگر اُن کی وفادری طالبان بانی سربراہ ملا عمر کے ساتھ رہی۔
سال 2007 میں افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت کے دوران جلال الدین حقانی نے اپنے گروہ کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کے حوالہ کی جو جلد ہی افغان طالبان کے ایک اہم رہنما بن گئے۔ 2007 میں جلال الدین حقانی کی علالت کے بعد سراج الدین حقانی نے افغان طالبان میں والد کی جگہ سنبھالی لی اور جب وہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف حملوں کی سربراہی کرنے لگے تو خلیل حقانی کو خاندان کا سربراہ بنا دیا گیا۔
خلیل حقانی اس دوران ایک بااثر قبائلی رہنما کے طور مشہور ہوئے جو مقامی قبائل کے تنازعات کے حل کے لیے جرگوں کے ایک اہم رکن بنے جس کی بدولت حقانی خاندان نے شمالی وزیرستان کی قبائلی قیادت میں کافی اثر رسوخ بنایا۔
سال 2001 کے بعد سے عسکری کردار نہ ہونے کے باوجود امریکی حکومت نے فروری 2011 میں خلیل حقانی کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرکے ان پر پچاس لاکھ امریکی ڈالرز انعام رکھا۔ ڈونلڈ رسلز اور واہید براؤن کی تحقیق کے مطابق امریکی حکومت خلیج کے عرب ممالک سے خلیل حقانی کو حقانی نیٹ ورک کے فنڈز حصولی کا اہم رکن سمجھتی تھی، اس لیے اُن کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
افغان طالبان میں خلیل حقانی کا کردار اگست 2021 میں کابل میں سابق افغان حکومت کے خاتمہ کے بعد سامنے آیا جب دارالحکومت کابل پر طالبان نے قبضہ کیا۔ ستمبر 2021 میں طالبان نے اپنی کابینہ کا اعلان کیا تو خلیل حقانی کو اس میں وزارتِ مہاجرین کا قلمدان دیا گیا اور وہ اپنی موت تک اس عہدے پر برقرار رہے۔ خلیل حقانی پر داعش کا حملہ طالبان سکیورٹی کی نمایاں ناکامی کے طور پر دیکھا جا رہاہے۔ اس سے قبل اسی قسم کی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے ایک حملے میں اگست 2022 میں دارالحکومت کابل میں داعش نے طالبان کے بااثر مذہبی رہنما مولوی رحیم اللہ حقانی کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
سال 2022 میں داعش کے حملہ آور نے مصنوعی پاؤں میں بارود سے بھر کر رحیم اللہ حقانی کو اُن کی دینی درسگاہ میں واقع دفتر کے سامنے نشانہ بنایا تھا۔ داعش کی شدید مخالفت کی وجہ سے رحیم اللہ حقانی اس شدت پسند گروہ کی ہٹ لسٹ پر تھے اور تمام تر احتیاط کے باجود داعش کا خودکش حملہ آور اُن تک پہنچنے میں کامیاب رہا تھا۔ اس کے علاوہ مارچ 2023 میں شمالی افغان صوبہ بلخ کے طالبان گورنر مولوی داؤد مزمل کو بھی داعش کے ایک حملہ آور نے سائل کی روپ میں گورنر ہاؤس کے اندر پہنچ کر خودکش حملے کا نشانہ بنایا۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ کابل میں داعش کے خودکش حملہ آور نے اُسی طرز کی منصوبہ بندی سے خلیل حقانی کو اُن کے محافظین کے سامنے نشانہ بنایا جن طریقے سے رحیم اللہ حقانی اور داود مزمل پر کو نشانہ بنایا گیا۔ اگست 2021 میں برسراقتدار آنے کے طالبان کے لیے داعش ایک اہم خطرے کے طور ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تاہم ساڑھے تین سالہ اقتدار میں طالبان نے داعش کے خطرہ کو نمایاں طور پر کمزور کیا ہے، اس کی اہم دلیل افغانستان میں داعش کے حملوں میں نمایاں کمی ہے۔
یاد رہے کہ 18 ستمبر 2021 سے داعش نے طالبان اقتدار کے دوران طالبان مخالف حملوں کا آغاز کیا جس میں دسمبر 2021 کے آخر تک داعش نے 121 حملے کیے جن کی تعداد 2022 میں 171 اور 2023 اور 2024 میں بالترتیب فقط 11 اور 14 رہی۔ تاہم ماہرین کے مطابق حملوں میں کمی کے باوجود داعش طالبان کے لیے ایک اہم خطرہ ہے اور خلیل حقانی جیسے اہم رہنما کی ہلاکت اس کی واضح دلیل ہے۔