اسلام آباد احتجاج : گرفتار PTI ورکرز پارٹی قیادت کو کوسنے لگے
پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کو جیلوں میں بے یارومددگار چھوڑنے اور قانونی معاونت نہ کرنے پر یوتھیوں میں پارٹی قیادت کیخلاف شدید غم و غصہ اور مایوسی پائی جاتی ہے۔ جبکہ گرفتار شرپسندوں کے اعترافی بیانات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف تحریک انصاف کی ساکھ مزید خراب ہو گئی ہے بلکہ گرفتار یوتھیے باقی پارٹی کارکنان کیلئے نشان عبرت بھی بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈی چوک میں احتجاج کے وقت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت فرار ہو گئی تھی۔ جبکہ بڑی تعداد میں ورکرز گرفتار ہوئے تھے۔ جو اسلام آباد کی مختلف جیلوں اور تھانوں میں قید ہیں۔ تاہم ان گرفتار کارکنوں کیلئے پارٹی کی جانب سے نہ تو کوئی قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے اور نہ ان کے والدین کی اپنے بچوں سے ملاقات کا بندوبست کیا گیا ہے۔ملاقات نہ ہونے پر والدین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور ان میں تحریک انصاف کیخلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق گرفتار کارکنوں کے گھروں میں اس وقت شدید بے چینی کا ماحول ہے۔ جہاں والدین پریشان ہیں۔ ذرائع کے بقول اکثر والدین کا شکوہ ہے کہ ان کے بچوں کو بے آسرا پہلے ڈی چوک میں چھوڑا گیا اور اب جیلوں میں بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دوسری جانب ڈی چو ک سے گرفتار پی ٹی آئی کے شرپسندوں کے اعترافی بیانات نے بھی پارٹی کیلئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ ان اعترافات نے پی ٹی آئی کی ساکھ مزید گرادی ہے اور پشاور سمیت صوبہ بھر میں کھلے عام اس معاملے پر بات کی جا رہی ہے اور تحریک انصاف کو کوسا جا رہا ہے۔
ادھر صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومت گرفتار کارکنوں سے اہلخانہ کی ملاقات نہیں کرا رہی۔ والدین پریشانی کے عالم میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت جلد ملاقات کا بندوبست کرائے۔ تاکہ اہلخانہ کو تسلی ہو۔ صوبائی مشیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعلی نے پارٹی وکلا کو ہدایت کردی ہے کہ ملاقاتوں کو یقینی بنانے کیلئے قانونی معاونت فراہم کریں۔ بیرسٹر محمد علی سیف نے یہ بھی کہا کہ حکومت گرفتار کارکنوں سے زبردستی ویڈیوز ریکارڈ کروا رہی ہے۔
دوسری جانب سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کیلئے اپنے ورکرز کو رہا کرانے کیلئے فوری طور پر اقدامات کرے۔ کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی رہے گی۔ پارٹی ورکرز بدظن ہوتے جائیں گے۔ چونکہ ان کارکنوں نے پارٹی قائد کی رہائی کیلئے ہی احتجاجی مار چ میں شرکت کی تھی۔ اس لئے ان کی ضمانتوں اور رہائی کیلئے فوری طور پر تحریک انصاف وکلا کا بندوبست کرے اور تمام اخراجات خود برداشت کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو تحریک انصاف کی کال پر لبیک کہنے والے بچے کھچے یوتھیے بھی بھاگ جائیں گے۔
بشریٰ بی بی کوتنہا نہیں چھوڑا، ان کے ساتھ ہی تھا : علی امین گنڈاپور
مبصرین کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار کارکنوں میں ایسے ورکرز بھی ہو سکتے ہیں جو غریب اور متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوں اور وکلا کی فیسوں کی ادائیگی ان کے بس میں نہ ہو۔ اس لئے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ گرفتار ہونے والے ورکرز کے ساتھ ان کے والدین اور رشتہ داروں کی ملاقاتوں کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے اور ان کی ضمانتوں کیلئے بھی ٹھوس و عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ورکرز میں مایوسی بڑھے گی اور اگلے احتجاج یا مارچ کی کال دی گئی تو پھر ورکرز پارٹی پر اعتماد نہیں کریں گے اور گھروں سے نہیں نکلیں گے۔ ایسے میں پارٹی کو ہی مشکلات کا سامنا ہو گا کیونکہ پارٹی کی بے مروتی کخ وجہ سے پہلے ہی یوتھیے پارٹی سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو معلوم ہونا چاہیے کہ کارکنان کسی بھی پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔