جاپان جیسا ترقی یافتہ ملک ہمیشہ سے پاکستان کا احسان مند کیوں ہے
جاپان دنیا کے ان چار ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات شروع دن سے حیران کن رہے، دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹ کا حامل جاپان قیام پاکستان کے پہلے روز سے ہی ہمارا احسان مند ہے کیونکہ قائد اعظم نے برطانیہ کی خواہش کے برعکس جاپان کے یوم شکست یعنی پندرہ اگست کو پاکستان کا یوم آزادی قرار نہیں دیا بلکہ چودہ اگست کو پاکستان کی آزادی کا دن مقرر کیا. اس کے علاوہ بھی پاکستان نے جنگ عظیم سے تباہ حال جاپان کی کئی مواقع پر مدد کی. یہ معلومات سینئر صحافی اور کالم نگار جاوید چودھری نے اپنی ایک تحریر میں دی ہیں . وہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن پاکستان اور بھارت کو 15 اگست 1947 کو آزادی دینا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ جاپان تھا‘ جاپان نے 1945میں 15 اگست کو امریکا کے سامنے ہتھیار ڈالے تھا‘ اتحادی فوجیں یعنی امریکا‘ برطانیہ اور یورپی ملک 15 اگست کو یوم فتح کے طور پر مناتے تھے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خواہش تھی 15 اگست 1947 کو جب پورا برطانیہ یوم فتح منا رہا ہوتو بھارت اور پاکستان کی پیدائش اس وقت ہو تاکہ ہر سال جب ان دونوں ملکوں کے لوگ آزادی کی تقریبات منائیں تو اس وقت جاپانی افسردہ ہوں اور یہ کھیل تاابد جاری رہے۔ یہ منصوبہ جب قائداعظم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً انکار کر دیا‘ قائد کا کہنا تھا ’’ہم اپنا یوم آزادی کسی دوسری قوم کے یوم شکست پر نہیں رکھیں گے‘‘ لہٰذا قائداعظم کے اصرار پر پاکستان 14 اگست کو آزاد ہوا جب کہ جواہر لال نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز کو قبول کر لیا جس کے نتیجے میں بھارت 15اگست کو آزاد ہوا اور یہ آج بھی جاپان کے یوم شکست پر اپنا یوم آزادی مناتا ہے۔ جاپانی آج تک پاکستان کا یہ احسان نہیں بھولے‘ جاوید چودھری بتاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان نے تاوان ادا کرنا شروع کیا ، یہ آج بھی امریکا کو ہر سال 10 بلین ڈالر ادا کرتا ہے)‘ پاکستان کا اس تاوان میں چھٹا حصہ تھا‘ قائداعظم نے اس وقت اپنا یہ حصہ بھی جاپان کو معاف کر دیا تھا جب ہمارے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے رقم نہیں تھی۔جاپانی آج تک یہ احسان بھی نہیں بھولے . پاکستان نے اپنے ابتدائی دنوں میں جاپان کو نقد امداد بھی دی. دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں بے انتہا غربت تھی‘ 1960تک ان کے بچے خوراک کی قلت کا شکار تھے‘یہ بچے لاغر اور کم زور پیدا ہوتے تھے اور ان کی پرورش میں بھی کمی رہ جاتی تھی۔ لہٰذا ان کے قد چھوٹے‘ ہڈیاں کم زور‘ وزن کم اور رنگ پیلے تھے‘ جاپانی اس دور میں 24 گھنٹے میں صرف ایک کھانا کھاتے تھے‘ انھوں نے اس دور میں اندازہ کیا ہم اگر دن تین بجے کھانا کھائیں تو چوبیس گھنٹے گزار سکتے ہیں چناں چہ یہ دن تین بجے کھانا کھاتے تھے اور اگلی خوراک کی باری اگلے دن آتی تھی۔ اس وقت ان کی حالت یہ ہوتی تھی پاکستان نے 1957میں چاولوں سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز ٹوکیو بھجوایا‘ جہاز پر جاپان کی امداد کے لیے پاکستان کا تحفہ لکھا ہوا تھا اور اس کی تصویریں باقاعدہ اخبارات میں شایع ہوئیں اور پورے جاپان نے ہاتھ جوڑ کر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا مگر اب صورت حال یہ ہے کہ صنعتی ترقی کے میدان میں جاپان کو اُبھرتے سورج کی سی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان صنعتی لحاظ سے ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے، جہاں بے شمار بڑے کارخانے قائم ہیں۔ ان کارخانوں میں لاکھوں افراد کام کر رہے ہیں۔ یہ کارخانے زیادہ تر خود کار آلات سے لیس ہیں، جن میں موٹر سائیکلیں، بڑے بڑے بحری جہاز، بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز، کمپیوٹر، لوہے اور فولاد کی مشینیں، کیمیائی سامان اور اعلیٰ معیار کی اشیاء صرف مثلاً گھڑیاں، ٹیلی ویژن سیٹ، الیکٹرونک کیلکولیٹرز، موبائل فون، ساکت کیمرے اور ویڈیو کیمرے تیار کیے جاتے ہیں.دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا جہاں ’میڈاِن جاپان‘ والی کوئی شے موجود نہ ہو۔ اتنی بڑی کامیابی صرف محنت اور دیانت داری کے بل پر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جاپان کی اس ترقی کا رازاس حقیقت کا اعتراف ہےکہ اس نے دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد نا ہی جھوٹی اَکڑ دِکھائی اور نا ہی بے فائدہ ماتم میں اپنا وقت برباد کیا، بلکہ ازسر نو جدوجہد کی۔ اس نے اپنے دشمن کے خلاف الفاظ کی بے مقصد جنگ میں پڑنے سے اجتناب کیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا، اسی ناکامی سے ہی ان کو ترقی کی راہیں ملیں اور اس ناکامی ہی نےجاپانی قوم کو تعلیم و صنعت کے میدان میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔