عدلیہ کیلئے کلنک کا ٹیکہ بننے والے بندیال کے متنازع فیصلے

جسٹس عمر عطاء بندیال کا دور کئی حوالوں سے تنازعات کا شکار رہا اور مختلف سیاسی جماعتیں ان کے فیصلوں پر تنقید کرتی رہیں۔ ایک سال 7 ماہ اور 14 روزچیف جسٹس رہنے والے جسٹس عمر عطاء بندیال کا دور اس حوالے سے اس لیے بہت مختلف تھا کیونکہ ان کے فیصلوں پر عوام اور سیاسی جماعتیں تو ایک طرف ان کے ساتھی ججز بھی کھل کر زبانی اور تحریری صورت میں تنقید کرتے نظر آتے۔وی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق  فروری۔مارچ 2023 سے ججوں کے مابین تنازعات نے مزید شدت اختیار کر لی جس سے سپریم کورٹ کا بحیثئت مجموعی تاثر خراب ہوا اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رفتار میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔

 28 مارچ2022 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس پر رائے شماری کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مؤخر کرتی رہی اور 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے کی رولنگ دی۔ جس کو جسٹس بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے رائے شماری کا حکم نامہ جاری کیا۔اسی دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے بھی ایک حکم نامہ جاری کیا جس کو بھی سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے اسمبلیوں کو بحال کیا اور تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا حکم جاری کیا۔9 اپریل کو رات کے وقت سپریم کورٹ کی عمارت کھولی گئی اور پھر تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی جس سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف اس عدالتی فیصلے کو متنازع کہتی ہے جبکہ باقی سیاسی جماعتیں اس سے متفق نظر آتی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور کی سب سے متنازعہ چیز ان کا 3 رکنی ہم خیال بینچ تھا جس نے ملکی سیاست اور حکومت کے بارے میں انتہائی اہم فیصلے کیے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے اور ان کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں ہمیشہ شامل رہتے۔اس بینچ کی تشکیل پر متعدد بار اعتراضات اٹھائے گئے اور وفاقی حکومت سمیت سیاسی جماعتیں لارجر بینچ اور فل کورٹ کا مطالبہ کرتی رہیں لیکن چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح ، پنجاب الیکشن، نیب ترامیم کیس سمیت کئی بار درخواستوں کو مسترد کیا اور 3 رکنی بینچ قائم رکھا جس کی وجہ سے کئی ملکی نوعیت کے اہم فیصلے تنازعات کا شکار ہوئے۔

الیکشن التوا کے معاملے پر پہلے 9 رکنی بینچ بنایا گیا تھا جو پہلے 7 رکنی ہوا اور پھر سکڑتے سکڑتے بالآخر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل اسی 3 رکنی بینچ پر اختتام پذیر ہوا۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اسی 3 رکنی بینچ نے پہلے 30 اپریل اور الیکشن کمیشن کی اپیل کے بعد 14 مئی کو انتخابات کا حکم جاری کیا۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں الیکشن التوا کیس میں ایسا فیصلہ سنایا جو بعض ماہرین قانون کے مطابق ان کے لیے حیران کن تھا۔ اسی تین رکنی ہم خیال بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی انتخابات کا سارا شیڈول بھی بنا کر دے دیا گزشتہ مہینے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن حیران کن طور پر کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کی۔ اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتیں اس بات پر زور دیتی رہیں کہ سماعت کے لیے فل کورٹ یا لارجر بینچ بنایا جائے لیکن استدعا مسترد ہو گئی اور فیصلہ اسی 3 رکنی بینچ نے سنایا۔پنجاب الیکشن التوا کیس میں ایک اور بحث شدت اختیار کر گئی تھی کہ آیا یہ فیصلہ چار تین کی اکثریت سے مسترد ہو چکا ہے یا دو تین کی اکثریت سے منظور کیونکہ کچھ ججوں نے اس بنا پر یہ مقدمہ سننے سے معذرت کر لی تھی کہ اس مقدمے کو ازخود اختیارات کے تحت سننا سپریم کورٹ کا اختیار نہیں۔

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے معاملے میں جب سپریم کورٹ کے سامنے ایک صدارتی ریفرنس آیا تو سپریم کورٹ کے 5 میں سے 3 ارکان نے گزشتہ سال 17 مئی کو ایک ایسا فیصلہ دیا جسے بینچ میں شامل دوسرے جج صاحبان اور وکلا نے آئین کو از سر نو لکھے جانے کے مترادف قرار دیا۔ اس فیصلے کو آئینی اور قانونی ماہرین نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بنیاد قرار دیا۔اس مقدمے میں عدالت کے سامنے بنیادی قضیہ یہ تھا کہ آیا پاکستان تحریک انصاف کے وہ اراکین اسمبلی جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ ڈالے کیا ان کے ووٹ شمار کیے جائیں گے یا نہیں؟ اور کیا وہ بدستور ممبرانِ اسمبلی رہیں گے؟ تو اس پر سپریم کورٹ کے اس 3 رکنی بینچ نے وہ فیصلہ دیا کہ جس سے مذکورہ ممبران اسمبلی نہ صرف نااہل ہوگئے بلکہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے گئے۔

سپریم کورٹ کے اسی 3 رکنی بینچ نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی اس رولنگ کو خلاف قانون قرار دیا تھا جس کے تحت پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے بطور پارٹی صدران کی ہدایت کے خلاف دیے گئے ووٹ مسترد کیے گئے تھے۔اسی عدالتی حکم نامے کے بعد حمزہ شہباز کی جگہ پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ سے لارجر بینچ بنانے کی اپیل کی گئی تھی لیکن لارجر بینچ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسی 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا۔

نیب قانون میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست بھی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی اور گزشتہ ہفتے چیف جسٹس نے اس مقدمے میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اس مقدمے میں وفاقی حکومت اور بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے بھی فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا جس کو چیف جسٹس نے منظور نہیں کیا۔

 گزشتہ اتحادی حکومت نے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو آف ججمنٹس ایکٹس کے عنوان سے دو پارلیمانی ایکٹس منظور کیے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے اختیارات کو 3 سینیئر ترین ججوں کی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ جبکہ ریویو آف ججمنٹس ایکٹ میں ازخود اختیارات کے تحت سنے جانے والے مقدمات میں اپیل کے دائرہ کار کو بڑھا دیا گیا۔ جسٹس بندیال کی سربراہی میں ایک بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس پر حکم امتناع جاری کیا جو کہ بدستور قائم ہے جبکہ ریویو آف ججمنٹس کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

17 ستمبر سے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کے تناظر میں اس سال مارچ میں ایک فیصلہ جاری کیا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں آتا ازخود اختیارات مقدمات کی سماعت روک دی جائے لیکن سابق رجسٹرار عشرت علی کی جانب سے ایک سرکلر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا وہ فیصلہ غیر مؤثر ہے، سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر جب چیف جسٹس نے 9 رکنی بینچ قائم کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس میں بھرپور انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی موجودگی میں وہ چیف جسٹس کے بنیچوں کی تشکیل کے اختیارات کو نہیں مانتے۔

 اپریل2023 میں کچھ آڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں ایک آڈیو مبینہ طور پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی ساس سے متعلق بھی تھی اور اس میں جسٹس منیب اختر کا نام بھی آ رہا تھا۔ اسی طرح ایک آڈیو مبینہ طور پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی تھی جس میں مبینہ طور پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بارے میں گفتگو کی گئی تھی۔سابق پی ڈی ایم حکومت نے ان آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔ تاہم 26 مئی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے اسے کام سے روک دیا اور قرار دیا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کی بطور کمیشن تعیناتی کے لیے چیف جسٹس کی اجازت ضروری ہے۔ 12 ستمبر کو چیف جسٹس نے مفادات کے ٹکراوٗ کے اصول کے تحت آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستیں سننے والے بینچ میں اپنی شمولیت پر وفاقی حکومت کے اعتراضات کو بھی مسترد کر دیا بعد ازاں اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل آڈیو لیکس کمیشن پر چیف جسٹس عطاء بندیال نے اپنی ساسو ماں، پرویزالہیٰ، مظاہر نقوی، عابد زبیری سمیت تمام عمران زادوں کو این آر اودے دیا اور کیس کی سماعت کرنے والے 3 ججز پر اٹھائے گئے حکومتی اعتراضات کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے متفرق

صدر کا ملک میں ”تھرتھلّی “ مچائے رکھنے کا شوق

درخواست مسترد کر دی۔

Back to top button