جسٹس مظاہر نقوی کے بیٹے والد کے دفاع میں کھل کر سامنے آ گئے

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دو رفقرنسز فائل کرنے والے ایڈووکیٹ میاں داؤد کیخلاف جسٹس مظاہر نقوی کے بیٹے میدان میں آ گئے ہیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بیٹوں نے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے والے وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ کو قانونی نوٹس بھیج دیا۔

سپریم کورٹ جج کے بیٹوں مرتضیٰ نقوی اور مصطفیٗ نقوی ایڈووکیٹ کی جانب سے میاں داؤد کو قانونی نوٹس بھجوایا گیا ہے۔نوٹس میں کہا گیا ہے کہ میاں داؤد میڈیا اور سوشل میڈیا پر آئے روز اپنے ہینڈلرز کی ایما پر ہمارے خلاف منفی مہم چلا رہے ہیں۔قانونی نوٹس میں کہا گیا کہ میاں داؤد نے کسی قانون کے ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی، پوری بار ایسوسی ایشن میں ان کی سرگرمیوں کے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ میاں داؤد کا ہمیشہ سے رجحان رہا ہے کہ معزز ججز اور ان کے خاندانوں کےخلاف منفی پروپیگنڈا کریں۔اس میں کہا گیا کہ قانون کی نظر میں میاں داؤد وکیل نہیں کہلائے جاسکتے کیونکہ وہ میڈیا پرسن بھی ہیں نہ ہی وہ آج تک وکلا برادری میں کوئی مقام حاصل کرسکے ہیں۔نوٹس میں کہا گیا کہ میاں داؤد نے جو مہم جوئی شروع کر رکھی ہے اس پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔نوٹس میں کہا گیا کہ آپ نے تمام الزامات بلیک میلنگ اور ہمیں بدنام کرنے کے لیے لگائے، 15 روز میں اپنے الزامات واپس لے کر معافی مانگیں۔میاں داؤڈ کو تنبیہ کی گئی کہ اگر معافی نہ مانگی تو ان کے خلاف سول اور فوجداری مقدمات دائر کیے جائیں گے۔

دوسری جانب میاں داؤد ایڈووکیٹ نے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے بیٹوں کی جانب سے قانونی نوٹس بھجوانے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نوٹس کا جواب دینے یا نہ دینے کا فیصلہ وکلا دوستوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کسی دھمکیوں میں آنا والا نہیں ہوں۔انہوں نے کہا کہ قانونی نوٹسز کی آڑ میں چھپنے کے بجائے کرپشن اور لوٹ مار کا سپریم جوڈیشل کونسل میں جواب دیا جائے۔

واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں عدالت عظمیٰ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف میاں داؤد ایڈووکیٹ نے 2 صفحات پر مشتمل درخواست سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی تھی جس میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس کی فوری سماعت اور ان سے عدالتی امور واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل عمرانڈو ہو جانے والے سابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ آڈیو لیک ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف جائیدادوں سے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے انفرادی طور پر جمع کروایا گیا تھا، جس میں سپریم کورٹ کے جج پر مس کنڈکٹ اور ناجائز اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔وکیل میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے، ناجائز اثاثے بنائے، فرنٹ مینوں کے ذریعے ناجائز دولت اکٹھی کی۔ریفرنس میں مزید کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے اثاثوں میں حالیہ دنوں میں 3 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔  جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے ناجائز اثاثے،آڈیو لیک جیسے معاملات کی تحقیقات کی جائیں۔دائر کیے گئے ریفرنس میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور ان کے اہل خانہ کی جائیدادوں اور اثاثوں کی تحقیقات کرے۔

یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی سے منسوب ایک آڈیو سامنے آنے سے پہلے بھی میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل سے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی شروع کرنے کی درخواست کی تھی۔ریفرنس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔درخواست گزار میاں داؤد نے کہا تھا کہ ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے رہنما عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے اور اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں‘۔شکایت گزار کے مطابق ’سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے نجی گفتگو کے دوران اعتراف کیا کہ جسٹس مظاہر علی نقوی پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں‘۔

سپریم کورٹ کے پنجاب اور کے پی کے میں مقررہ مدت میں انتخابات کے انعقاد کے حکم کے بعد عمران خان کے نئے انتخابات جے مطالبے میں شدت آ چکی ہے جبکہ دوسری طرف محمکہ خزانہ، دفاع، سیکیورٹی ایجنسیز سمیت حکومتی اتحادی جماعتیں فوری انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کر رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق نئے انتخابات سے سیاسی محاذآرائی ختم نہیں ہو گی بلکہ پاکستان کی اقتصادی اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری کی بجائے ابتری پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔تاہم یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد ایک مہنگا عمل ہے، یہاں سوا یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جو اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، عام انتخابات کے انعقاد پر سرمایہ خرچ کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟

کیا عمران خان، ظل شاہ کیس میں گرفتار ہوں گے؟

Back to top button