تاریخ کا دھارا بدلنے والے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے
قاضی فائز عیسیٰ گزشتہ چار دہائیوں سے بار اور بنچ کا حصہ ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائر عیسی کے حوالے سے قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں صرف اور صرف آئین اور قانون کو مقدم رکھتے ہیں فیصلہ دیتے ہوئے نہ وہ کسی کا دباؤ لیتے ہیں اور نہ ہی قانون کی خلاف ورزی پرکسی کو کوئی ریلیف دیتے ہیں۔ حتی کہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ساتھی ججز سے بھی اختلاف رائے کا اظہار کرنے میں بالکل ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔سنہ 2009ء سے 2014ء تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور ستمبر 2014ء میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔ انہیں 21 جون 2023 کو صدر عارف علوی نے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا ۔قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر 2024 تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے، وہ 45 سال سے شعبہ قانون سے وابستہ ہیں، قانون کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد انہوں نے تقریباً 27 سال تک بطور وکیل اپنے فرائض سر انجام دیے، 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر 21 مارچ 1998 کو سپریم کورٹ میں بحیثیت وکیل فرائض کی انجام دہی کے لیے لائسنس حاصل کیا۔5 اگست 2009 کو بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوئے جبکہ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے قاضی فائز عیسیٰ نے 2010 میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف پر قاتلانہ حملے اور 2012ء میں پیپلز پارٹی اور پاک فوج کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے میموگیٹ سکینڈل سے متعلق دو تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی بھی کی۔ دونوں معاملات میں سیاسی جماعت اور سویلین قیادت پر لگائے گئے سنگین الزامات جھوٹے پائے گئے۔ نوتعینات چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بحیثیت جج سپریم کورٹ اپنے دور میں بہت سے اہم اور دلیرانہ فیصلے کیے،سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر درج پروفائل میں بتایا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے آئین اور قانون کی حکمرانی اور عوامی مفادات کے تحفظ کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔ جسٹس عیسیٰ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے، توہین مذہب کے مقدمات میں اقلیتوں کو منصفانہ ٹرائل کا حق دینے اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق بڑی واضح رائے رکھتے ہیں اور اس کا اظہار ان کے فیصلوں میں ملتا ہے۔
نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد کے مقام پر دیئے گئے دھرنے کے خلاف کیس میں قاضی فائز اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ کے 6 فروری 2019ء کے فیصلے میں قاضی فائز عیسی نے پاکستان کے سیاسی نظام میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور میڈیا کی سینسر شپ کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس فیصلے میں قاضی فائز نے وزارت دفاع کے توسط سے پاک فوج، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ماتحت ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔عدالت نے فوجی اور خفیہ اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کی بھی ہدایت کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سخت آئینی انداز 2019 کے فیض آباد دھرنا کیس میں جھلکتا ہے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنے کا حق صرف اس حد تک محدود ہے کہ یہ دوسروں کے بنیادی حقوق میں مداخلت نہ کرتا ہو، لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت، جائیداد رکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا حق کوئی نہیں لے سکتا، اس طرح وہ مظاہرین جو لوگوں کی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں، یا جائیداد کو تباہ کرتے ہیں، قانون کے مطابق ایسے مظاہرین کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے 8 اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات بھی کیں۔ 56 روز کی سماعت کے بعددسمبر 2016ء میں قاضی فائز عیسیٰ نے 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کر کے اس وقت کی سیکورٹی اداروں، وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے اور اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پر کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کے باعث تنقید کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ایک کیس میں سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان انتہائی مقروض ہے اور حکومت مزید قرض لے رہی ہے، اس طرح آنے والی نسلیں غریب پیدا ہوں گی اور مرتے دم تک غریب ہی رہیں گی، زیادہ تر پاکستانی اپنے سروں پر محفوظ چھت کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرتے ہیں، جبکہ مسلح افواج کے ججز اور افسران کو قیمتی شہری مقامات پرمفت زمین الاٹ کر دی جاتی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کو فنڈز کی تقسیم سے متعلق کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی بینچ کی تشکیل کے طریقے پر اعتراض کیا اور ریمارکس دیے کہ وفاداری ہمیشہ آئین کے ساتھ ہوتی ہے، اگر کسی ادارے کا سربراہ انحراف کرتا ہے تو اسے یاد دلایا جائے۔ جب اہم آئینی معاملات کی سماعت کی جائے تو سینیئر ججوں کو بینچوں سے باہر کرنا نہ تو ادارے کی خدمت کرتا ہے اور نہ ہی عوام کی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے میرٹ پر بھی اپنے ساتھیوں سے بھی اختلاف کرتے رہے اور ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ سینیٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں، سیاسی تقسیم کے دونوں فریق عوامی سطح پر ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کے سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ سینیٹ کے معزز چیئرمین کا انتخاب سنگین طور پر داغدار تھا۔ ان حالات میں سپریم کورٹ اس طرح کی مبینہ آئینی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور عوام کے حقوق کو سلب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
آئین کی 21ویں ترمیم کے ذریعے جب فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا قانون بنایا گیا تو اسے چیلنج کیا گیا تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک طاقتور اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ اس طرح کے ٹرائل آئین کے مطابق نہیں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 70 کروڑ کی کرپشن پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے ایک سرکاری ملازم کے ساتھ پلی بارگین کرنے پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی سرزنش کی تھی اور ریمارکس دیے تھے کہ چیئرمین کی جانب سے پلی بارگین کی منظوری بدعنوانی کے خاتمے اور ان تمام افراد کو جوابدہ کرنے کے لیے نیب آرڈیننس میں بیان کردہ مقصد کے خلاف ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے محروم نہ کیا جائے، وراثتی کیسز میں ریمارکس دیے کہ مردوں کا خواتین کو وراثت میں حق نہ دینا فراڈ ہے، مرد وارثوں کا خواتین وارثوں کو حق نہ دینا خواتین کی ولدیت سے انکار کرنے کے جیسا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلوں میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی شدید مذمت کی اور ریمارکس دیے کہ اس بات کو دوبارہ سے بتانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی قتل کبھی بھی قابل احترام نہیں ہوتا، قتل کی اس طرح درجہ بندی نہیں ہونی چاہیے، انتہا پسندی اور تشدد پاکستانی معاشرے میں پھیل چکا ہے، خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، معاشرے میں تبدیلی کے لیے عزت اہم کردار ادا کرتی ہے، ہمیں معاشرے کو تبدیل کرنا ہو گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مذہبی بنیادوں پر بنے ہوئے مقدمات پر ریمارکس دیے کہ مذہبی قوانین کو احتیاط کے ساتھ لاگو کیا جانا چاہیے، اس دوران اسلامی فقہی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے، اور کمال ہوشیاری سے کام لینا چاہیے کہ کہیں کسی بے گناہ کو مذہب سے متعلق جرائم کے سلسلے میں غلط سزا نہ دے دی جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور سپریم کورٹ جج ایک کیس میں پارکوں کے تحفظ اور گرین ایریا پر اشرافیہ کے قبضے پر سخت ریمارکس دیے تھے کہ پارکس اور گرین ایریا کو نجی استعمال کرنے کے لیے نہیں دینا چاہیے، آئین کا تقاضا ہے کہ سماجی انصاف اسلامی اصولوں پر ہو، زمین ریاست کا قیمتی اثاثہ ہے اور جب کسی غریب ریاست کی جانب سے اشرافیہ کو مفت یا کم نرخ پر زمین دی جاتی ہے تو اس سے ریاست کا بہت نقصان ہوتا ہے، اس قوم کے غریب بڑی مشکل کی زندگی گزارتے ہیں اور اشرافیہ نے عوام اور
عمران خان کی بیٹوں سے بات نہ کرانے پر جیل سپرنٹنڈنٹ سے جواب طلب
ملک کی بے توقیری کرتے ہوئے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔