اپوزیشن کے بعد کامران خان نے بھی کپتان کا استعفیٰ مانگ لیا
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد سے تقریبا ہر دوسرے روز اپنا سیاسی تجزیہ تبدیل کرنے والے سینئر اینکر پرسن کامران خان نے بالآخر اپنے محبوب قائد عمران خان کو استعفی دینے کا مشورہ دے دیا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ چلے جانے کے اعلان کے بعد کامران خان نے ٹوٹے دل کے ساتھ وزیراعظم کو ایک ٹویٹ میں مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘خان صاحب ہمت کریں، اپنی شکست تسلیم کریں اور وزیراعظم کی حیثیت سے فوری استعفیٰ دے دیں’۔
کامران خان کا کہنا ہے کہ جو بھی ہوا اور جیسے بھی ہوا لیکن اب عمران خان کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ سیاست کے اس میچ میں ان کو شکست ہو چکی ہے اور وہ پارلیمنٹ میں اکثریت کھو چکے ہیں۔ اخلاقی طور پر ان کا حق حکمرانی ختم ہو چکا ہے۔ ٹویٹر پر جاری بیان میں کامران خان نے ومران کو۔مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ آپ پاکستان کو آئندہ دنوں میں معاشی طلاطم اور آئینی دھینگا مشتی سے بچائیں۔ خان صاحب ہمت کریں۔ آپ عظیم سپورٹس مین ہیں چنانچہ سپورٹس مین سپرٹ دکھائیں۔
وقتی شکست تسلیم کریں اور وزیراعظم کی حیثیت سے فوری استعفی دے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سحر کی آمد سے گھنٹوں قبل اسلام آباد پارلیمنٹ لاجز میں خالد مقبول صدیقی کا لاج اپوزیشن کا مسکن تھا۔ پورا ملک محو خواب تھا۔ شہباز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ ایم کیو ایم والوں کے لئے آسمان سے تارے نوچ لانے کو تیار تھے۔ لیخن اس اجتماع میں کراچی نے کیا کھویا اور کیا پایا، یہ تو تاریخ بتائے گی۔
کامران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے معاہدے سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ 34 سال میں چوتھی بار شہری سندھ اور دیہی سندھ کے درمیان خلیج ختم ہونے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ باسیوں کو صرف دھوکا دیا، اپنی جیبیں گرم کیں۔ اللہ کرے اب کی بار ایسا نہ ہو میں محتاط خوش ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ قومی سلامتی کا ہے۔ مسئلہ معشیت سے مسلسل رستے خون کا ہے۔ ایک ماہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نظام حکومت تقریباً مفلوج ہے۔ افواج پاکستان لیڈرشپ کی سکت ہے کہ وہ سیاسی جنگ میں سیز فائر کروائے۔ دونوں فریقین کو جلد نئے الیکشن کے انعقاد کے لئے ایک پیج پر اکٹھا کرے۔
حکومت نے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر بند کرنے کا اعلان کردیا
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کے بعد قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور حکومت کے لیے پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کی بنیاد پر برقرار رہنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم کی شمولیت سے قبل بھی اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں 170 ارکان کی حمایت حاصل تھی مگر سات رکنی اتحادی جماعت کی شمولیت کے بعد اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 177 ووٹوں کی فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔
اب وزیراعظم صرف اس صورت میں اپنی حکومت بچا سکتے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم یا باپ کو حکومت میں واپسی پر قائل کر لیں یا اپوزیشن اور اس کے اتحادی ارکان کو قائل کر لیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ نہ دیں۔ یاد رہے کہ حکومتی جماعت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بائیس اراکین اسمبلی نے کھل کر اپوزیشن کے ساتھ جانے کا اعلان کر دیا ہے تاہم اس صورت میں ان ارکان پر بھی آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے اور انہیں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن یہ اراکین اسمبلی اپنا ووٹ کاسٹ نہ کریں تاکہ ان کی نشستیں بچ جائیں اور وہ نئی حکومت کا حصہ بن سکیں.
Kamran Khan also demanded the resignation of the captain | video in Urdu