گنڈاپور کے پی کی وزارت اعلی کی دوڑ سے باہر کیسے ہوا؟
خیبرپختونخوا میں 2 تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعدپاکستان تحریک انصاف صوبے میں حکومت بنانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں چار نام شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق کے پی کی وزارت اعلیٰ ،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر وزارتوں کیلئے ناموں پر صلاح مشورے جاری ہیں۔ پی ٹی آئی حلقوں کو خیبرپختونخوا کیلئے علی امین گنڈاپور کو فیورٹ قرار دیا جا رہاہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق 9مئی کی شرپسندانہ کارروائیوں میں مطلوب ہونے کی وجہ سے علی امین گنڈاپور کا وزیر اعلی بننا ناممکن نظر آتا ہے۔تاہم پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق ڈی آئی خان سے پارٹی کے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور ، مردان سے ظاہر شاہ طورو ، مالاکنڈ سے شکیل خان اور ایبٹ آباد سے مشتاق غنی کے نام وزارت اعلیٰ کیلئے پارٹی کے حلقوں میں زیرگردش ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنماسابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر،سینئر رہنما شکیل خان یا ظاہر شاہ طورو میں سے کسی ایک کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر دیکھنے کے خواہش مند ہے۔دوسری طرف سابق صوبائی وزرا تیمور جھگڑا کامران بنگش کا وزن علی امین گنڈاپور کے پلڑے میں نظر آرہا ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ بننے کیلئے کئی رہنما بانی چیئرمین سے جیل میں ملاقات کیلئے تگ و دو میں مصروف ہے۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے موجود مرکزی عہدیداروں اور خاص کر پارٹی کے جنرل سیکریٹری عمر ایوب نے اپنے کزنز ارشد ایوب اور اکبر ایوب کو وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے پی ٹی آئی کے دو سابق سینئر وزرا اور عمران خان کے قریبی ساتھی شہرام ترکئی اور عاطف خان کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ دیے۔ذرائع کے مطابق جب عاطف خان نے ٹکٹ دینے کی عمران کی ہدایات کو شیئر کرنے کی درخواست کی تو انہیں بتایا گیا کہ یہ ایک راز ہے اور اب یہ راز سامنے آیا ہے کہ عمران خان کو اس حوالے سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ جبکہ صوبائی صدر علی امین گنڈاپور جو روپوش ہیں، ان کو رام کرنے کے لیے انہیں صوبائی اسمبلی کے دو ٹکٹس دیے گئے۔
ٹکٹ دینے والوں کا خیال تھا کہ انہیں جیتنے نہیں دیا جائے گا لیکن وہ دونوں حلقوں سے جیت گئے۔ ان کے جیتنے کے بعد ان کا نام وزارت اعلیٰ کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آیا ہے۔دوسری جانب ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپورنے تمام مقدمات میں ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اگر علی امین گنڈاپور پر قائم مقدمات ان کی راہ میں رکاوٹ بنے تو ارشد ایوب اور اکبر ایوب سمیت مشتاق غنی وغیرہ کے نام وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق ایوب خان کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مذکورہ ممبران کے اداروں کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عاطف خان اور شہرام کو قومی اسمبلی کے ٹکٹس دے کر اس میدان سے آئوٹ کر دیا گیا۔ جبکہ پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی سابق اہم وزرا اور اہم رہنمائوں تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش ہار چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس صوبے میں پنجاب کی طرح ایک کمزور حکومت لانے اور پی ٹی آئی کے موجودہ مرکزی عہدیداروں کی جانب سے اپنے لوگوں کو نوازنے کا منصوبہ ہے جس کی وجہ سے شوکت یوسف زئی، تیمور سلیم اور کامران بنگش کو دوڑ سے باہر کر دیا گیا۔ اور زیادہ تر نئے لوگوں، جن میں کئی وکلا شامل ہیں کو وزارتیں دینے کا پلان بنایا گیا ہے۔
دوسری جانب روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے باوجود تحریکِ انصاف کو کسی قسم کا سیاسی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا اور آئندہ خیبرپختونخوا میں حکومت کی تشکیل کے بعد بھی مسائل ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ صوبے اور مرکز میں مختلف حکومتوں کے قیام کے بعد صوبہ خیبرپختونخواہ کے مالی مسائل مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں۔